پاکستانی جامعاتتعلیم

جدید تہذیبی چیلینجز اور جامعات کا کردار

آج بتاریخ 17 مئی 2022ء کو شعبہ تقابل ادیان وثقافت اسلامیہ،سندھ یونیورسٹی،جامشورو کی طرف سے ایک لیکچر پروگرام منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا:
” جدید تہذیبی چیلینجز اور جامعات کا کردار”
مہمان مقرر مشہور عالم دین مولانا زاھد الراشدی صاحب دامت برکاتہم العالیہ تھے.
اس پروگرام میں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسرس، رسرچ اسکالرس، اور طلباء وطالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مولانا صاحب کے لیکچر کا لب لباب یہ تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو مختلف تہذیبیں رائج تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نا تو تمام تہذیبوں کو من و عن قبول کیا اور نا ہی بالکل رد کیا بلکہ ہر تہذیب کے اچھے اقدار کو قبول کیا اور جاہلیت،تعصب، اور غیر عقلیت پر مبنی قدروں کو رد کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقعے پر یہ تاریخی کلمات ارشاد فرمائے:
"تمام جاہلی قدروں کو میں نے اپنے پیروں تلے روند ڈالا ہے” مطلب یہ تھا کہ بری اقدار کو روندتے ہوئے آگے بڑھتے جائو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک اصول دیا: خذ ما صفا ودع ماکدر ” ہر اچھی چیز واچھی قدر جہاں سے ملے لے لو اور ہر بری چیز کو چھوڑ دو”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے گئے اس سنہری اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ آج کی جدید تہذیب سے علم، جدید سائنس، صنعت، ٹیکنالاجی،معیشت، معاشرت، تجارت اور ہر شعبے میں اس کے اچھے اور اعلی اقدار کو قبول کریں مگر آج کی تہذیب کی وہ قدریں جو ہمارے دین، ہمارے عقیدے اور ہماری تہذیبی اقدار سے ٹکراتی ہوں ان سے ہمیں دور رہنا چاہیے۔
مولانا صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ آج ہم جب بھی مغرب سے کسی قسم کے تعاون کی اپیل کرتے ہیں تو مغرب ہمیں اس وقت تک کوئی امداد دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا جب تک ہم ان کی شرائط کو قبول نہ کریں۔ اور ان کی شرائط میں ان کی تہذیبی اقدار بھی ہوتی ہیں۔وہ ہماری معیشت، معاشرت، سیاست، تجارت ،یہاں تک کہ قانون سازی میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔
ہمیں غیر مشروط طور پر کوئی بھی مدد نہیں ملتی۔
اگر ہمیں غیروں کے تہذیبی تسلط سے آزاد ہونا ہے تو خود کفیل ہونا ہوگا، دوسروں کے دست نگر کبھی بھی غیروں کے تہذیبی تسلط سے آزاد نہیں ہوسکتے۔
مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ اسلامی تہذیب نیچرل اور بہت پر کشش ہے، اگر 25 سال تک اسے آزادی کے ساتھ پھلنے پھولنے دیا جائے تو دنیا، مغربی تہذیب کو چھوڑ کر اسلامی تہذیب کی طرف لپکے گی۔
مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ آج مغرب خود اپنی تہذیب سے تنگ آچکا ہے مگر پھر بھی سب کو اس کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔
مولانا صاحب نے اس موقعے پر سر سید احمد خان، مولانا حالی، مولانا شبلی نعمانی، سر سید کے دوسرے رفقاء کار ، علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کو خراج عقیدت بھی پیش کیا اور فرمایا کہ بر صغیر میں انگریز کے تسلط کے وقت یہ وہ قداور شخصیات تھیں جنھوں نے دو قومی نظریہ دے کر اپنی تہذیب کو محفوظ رکھنے کی شعوری طور پر کوشش کی۔ آج ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تہذیب کو محفوظ رکھنا چاہیے۔
آرگنائزر
ڈاکٹر بشیر احمد رند

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button