Agriculture & Water resources.تحقیق

شہد کا جمنا” حقیقت کیا ہے؟

.خالص شہد سے متعلق ایک بڑی غلط فہمی


تحریر: جواد عبدالمتین

اسلامک اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس

آپ جانتے ہیں کہ میرا اصل تعلق ایجوکیشن اور سکل ڈویلپمنٹ کے شعبے سے ہے اور میں 2008 سے مستقل طور پر اس سے وابستہ ہوں، اور نظریاتی بنیادوں پر قائم دو ادارے چلا رہا ہوں جن میں پہلا "اسلامک اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹ” ہے اور دوسرا "بیت الحکمہ ایجوکیشن سسٹم”۔

لیکن ساتھ ہی خالص شہد کے شعبے سے میرا تعلق 1993 سے ہے۔

اس شعبے سے تعلق اس وقت شروع ہوا تھا جب میری عمر بہت کم تھی اورایک دن والد صاحب اپنے شوق سے تقریباََ 25 کلو خالص شہد گھر لے آئے تھے جو بعد میں رشتےداروں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ بس یہیں سے اس شعبے سے بھی ایسا تعلق بنا جو آج تک قائم ہے۔

لیکن اس دوران کئی سالوں کی تحقیق کے بعد عام بازار میں فروخت ہونے والے شہد اور اصل خام شہد میں فرق کے متعلق جو حقائق سامنے آئے اس کی بنیاد پر 2007 میں شہد کے کاروبار کو نہ صرف کےمحدود کر دیا بلکہ تمام سیل پوائنٹ بند کر دیے اور عام لوگوں کو شہد کی فروخت سے معذرت کر لی۔ یعنی اس کام کو بھی نظریاتی بنیاد پر جاری رکھا مگر تجارتی بنیادوں پر اس سے تعلق منقطع کر دیا۔

ہماری اکیڈمی سے شہد کے کاروبار کے متعلق کروایا جانے والا کورس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اب ہمارا شہد کا کام صرف دوستوں اور رشتہ داروں تک محدود ہے یا وہ حضرات جو خام شہد کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اس کے متعلق مکمل معلومات رکھتے ہیں صرف وہی شہد حاصل کر سکتے ہیں، مگر اس شہد کو تجارتی بنیادوں پر فروخت کی بالکل بھی اجازت نہیں ہوتی۔

آگے چلنے سے پہلے یہ عرض کردوں کہ اس تحریر میں شہد کے جمنے سے متعلق جو حقائق بیان کئے جائیں گے ان کو غلط ثابت کرنے والے کیلئے 10 لاکھ روپے انعام بھی ہے۔ ساتھ اپنے رابطہ نمبر بھی دے رہا ہوں تاکہ کسی کو کوئی شک نہ رہ جائے۔ رابطہ نمبر یہ ہیں :- 03215108382 ، 03335105104

انہیں نمبروں پر واٹس ایپ سے بھی رابطہ کیا جاسکتا۔

ہمارے ملک میں ہر دوسرے شخص کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ خود سے ہی ڈاکٹر بھی بن جاتا ہے اور مفتی اعظم بھی۔

جب کوئی شرعی مسئلہ پیش آئے تو علمائے کرام سے پوچھے بغیر فتویٰ جاری کر دینا اور اگر کسی قرابت دار کو کوئی بیماری ہو تو ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اسے خود سے ہی دوا تجویز کر دینا یہاں لوگوں کی عام عادت ہے ۔

ایسا ہی کچھ معاملہ خالص شہد کے موضوع سے متعلق بھی ہے.

جو شہد کے متعلق کچھ نہ بھی جانتا ہو وہ بھی اس کے خالص یا نہ خالص ہونے اور مختلف صفات کے متعلق ایسے پُراعتماد ہو کر بات کرتا ہے جیسے اس کی زندگی شہد پر ہی تحقیق میں گزری ہے۔

شہد کی صنعت سے متعلق جوحقیقت یہاں بیان کرنا مقصود ہے وہ شہد کے جمنے کے بارے میں ہے، کہ آیا خالص شہد جمتا ہے یا نہیں جمتا۔

بعض لوگ شہد کے جمنے کو اس کی خرابی بتاتے ہیں اور بعض لوگ اس کو شہد کے خالص ہونے کی نشانی۔

تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ شہد کا جمنا ایک قدرتی عمل ہے لیکن یہ عمل تمام اقسام کے شہد میں نہیں ہوتا۔
شہد کے جمنے یا نہ جمنے کا اصل تعلق شہد کے خالص یا نہ خالص ہونے سے نہیں بلکہ اس میں موجود گلوکوز اور فرکٹوز کی مقدار اور آپ کے علاقے کے درجہ حرارت سے ہے۔
بعض علاقوں میں پائے جانے والے پھولوں میں فرکٹوز کی مقدار گلوکوز کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان پھولوں سے حاصل کیا گیا شہد کئی سال تک پڑا رہنے کے باوجود نہیں جمتا۔

جبکہ شہد کی اکثر اقسام میں فرکٹوز کی مقدار گلوکوز سے کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ کم سے کم 7 دن اور زیادہ سے زیادہ 6 مہینے کے دوران جم جاتا ہے۔

شہد اگرچہ درختوں سے اتارا گیا ہو یا مگس بانو یعنی بی-کیپرز سے حاصل کیا گیا ہو دونوں صورتوں میں یہی حقیقت ہے کہ شہد کے جمنے کا دارومدار ان پھولوں پر ہے جن سے شہد حاصل کیا گیا ہو۔

اب شہد کی مکھیاں پالنے والوں اور جنگلوں سے شہد اتارنے والوں میں بھی ہر طرح کے لوگ ہیں جن کی پہچان عام لوگوں کے لیے مشکل ہے لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر الگ سے تفصیلی تحریر لکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالٰی نے توفیق دی تو اس پر بھی تفصیل سے عرض کردوں گا تا کہ آپ کے لئے دونوں کی پہچان آسان ہوجائے کہ کس سے شہد حاصل کیا جائے اور کس سے شہد حاصل نہ کیا جائے ۔

تحریر کی طوالت سے بچنے کے لیے آخر میں یہ عرض کردوں کہ ہمارے ہاں بازار میں عام فروخت ہونے والا شہد عمومی طور پر اس لائق نہیں کہ وہ کسی مریض کو بیماری سے صحت یابی کے لئے استعمال کروایا جائے۔ کیونکہ اسے فروخت سے پہلے شدید حرارت کے عمل سے گزارا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھنے میں خوش نما، شفاف اور گاڑھا ہو جائے اور اس کے جمنے کے عمل میں جس قدر تاخیر ممکن ہو کی جا سکے۔

شہد پر تحقیق کرنے والے تمام اداروں کے مطابق اس حرارت کے عمل سے گزرنے کے بعد شہد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے اور اس میں شفائی اثرات بہت حد تک ضائع ہو جاتے ہیں۔

آپ کے لیے یہ بھی حیرت کی بات ہوگی کہ شہد استعمال کرنے والوں میں سب سے زیادہ نقصان وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو درآمد شدہ مہنگے برانڈز کے شہد استعمال کرتے ہیں، اگرچہ یہ دیکھنے میں بہت خوبصورت نہایت گاڑھے اور ذائقہ میں بہت عمدہ ہوتے ہیں مگر یہ کئی غیرقدرتی مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں جس کے بعد شہد کی اصل افادیت اور شفائی اثرات کا محفوظ رہنا تقریباََ ناممکن ہے۔
(اگر موقع ملا تو درآمدی شہد پر ایک الگ مضمون میں بات کریں گے)۔

اگر صرف ایک جملے میں آپ کو خالص شہد کی بہترین حالت کی پہچان کا آسان طریقہ اور بنیادی اصول بتانا ہو تو وہ بس اتنی سی بات ہے کہ،

"خالص شہد کو شہد کی مکھی کے چھتے سے صرف اس وقت اتارنا ہے جب وہ مکمل تیار ہو چکا ہوں (یعنی شہد کی مکھی نے اس کے خانے موم سے بند کر دیے ہوں) اور شہد کو چھوتے سے اتارنے کے بعد حرارت کے عمل سے ہرگز نہ گزارا جائے بس۔

آخر میں پھر گزارش ہے کہ اس بات کو پلے سے باندھ لیں اور اچھی طرح یاد رکھیں کہ "خالص شہد کا جمنا قدرتی عمل ہے اور اس کا تعلق شہد کی کوالٹی سے نہیں بلکہ ان پھولوں سے ہے جن سے مکھیوں نے یہ شہد حاصل کیا ہے” اور "برائے مہربانی آج کے بعد شہد کے جمنے کی صورت میں شہد فروخت کرنے والوں سے بحث کرنا اور اپنے آپ کو شہد کا ماہر ثابت کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دیجئے۔

حقائق جاننے کے لیے ہمیشہ شہد سے متعلق تحقیقاتی اداروں اور ماہرین سے ہی رابطہ کریں اور سنی سنائی باتوں اور شہد کو جانچنے کے غیر مصدقہ طریقوں پر یقین کرنا چھوڑ دیں۔

آخر میں پھرعرض کر دیں کہ شہد کے جمنے کے بارے میں جو ہمارے اس دعوے کو غلط ثابت کر دے جو اوپر اس تحریر میں کیا گیا ہے تو اس کے لیے ” دس لاکھ روپے انعام ہے” اور "جو نہ کر پائے اس کے لیے اتنا ہی جرمانہ” ۔

شہد کی صنعت سے تعلق رکھنے والے تمام احباب کو بغیر کسی ردوبدل کے یہ تحریر آگے شیئر کرنے کی اجازت ہے۔

===================

وَمَا عَلَیْنَآ اِلاَّ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button