بین الاقوامیتحقیق

چین کی ترقی کے سفر میں پاکستان کا کردار۔

قاضی مرشد مسعود ریاست ہائے متحدہ امریکہ

آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان چین کی پہلی کھڑکی تھا‘ چین کے لوگوں نے پاکستان کے ذریعے دنیا کو دیکھنا شروع کیا ‘ پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ائیر لائن تھی جس کے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھوا‘ اس لینڈنگ پر پورے چین میں جشن منایا گیا ‘

پاکستان نے ایوب خان کے دور میں چین کو تین جہاز فروخت کئے ‘ ان میں سے ایک جہاز ماﺅزے تنگ استعمال کرتے تھے‘ اس جہاز پر آج بھی ”کرٹسی بائی پاکستان“ لکھا ہے۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات کی امپورٹ کی اجازت دی اور ہم ایک طویل عرصے تک چین کے ریزر اور سوئیاں استعمال کرتے رہے‘

پاکستان نے چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت بھی دی ‘ چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے اور پاکستان انہیں حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتا تھا اور پاکستان کا ویزہ کبھی چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتا تھا لیکن آج وہ چین دنیا میں ترقی کی انتہا کو چھو رہا ہے‘ یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں‘

چین آگے نکل گیا جبکہ ہم اپنے ہی مزار کے مجاور بن کر رہ گئے‘ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی تنزلی کا جامع تجزیہ نہیں کیا‘ ہم نے کبھی ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا جن کے باعث چین چین ہو گیا‘ جن کے باعث چین نے چاند تک ”میڈ اِن چائنا“ کی مہر پہنچا دی‘ جن کے ذریعے چین نے نا صرف اپنے سوا ارب لوگوں کو روزگار‘ صحت‘ تعلیم اور شاندار زندگی فراہم کی بلکہ وہ دنیا بھر کے ساڑھے چھ ارب لوگوں کی ماں بھی بن گیا۔

ہم نے کبھی چین کی ترقی کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو پورے یورپ میں ایسے 39شہر ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ چین نے پچھلے تیس برسوں میں 160ایسے نئے شہر آباد کئے ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے اور ان میں دنیا کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں‘

آج مرسیڈیز کاروں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے ۔

آج یورپ‘ امریکا اور پاکستان میں ایسی سبزیاں اور فروٹ ملتا ہے جس پر چائنا کا سٹیکر لگا ہوتا ہے اور

آج دنیا کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں لیکن ہم نے کبھی چین کی اس ترقی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے زوال کے شواہد اکٹھے کئے‘

ہم نے کبھی نہیں سوچا چین کی ترقی کے چار اصول تھے۔

مخلص لیڈر شپ‘

ان تھک محنت‘

اپنی ذات پر انحصار

اور خودداری۔

چین نے کبھی دوسری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا ‘ اس نے ہمیشہ اپنے وسائل پر انحصار کیا‘ یہ لوگ پندرہ‘ پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور جب اس کام سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی لیڈر شپ نے اپنا تن‘ من اور دھن قوم پر وار دیا ‘

ان کے لیڈر کا جنازہ تین مرلے کے مکان سے نکلا اور اس نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک میں قدم نہیں رکھا ‘

ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا چین کی یہ چاروں خوبیاں ہماری سب سے بڑی کمزوریاں ہیں‘

ہم نے کشکول کو اپنی معیشت بنا رکھا ہے‘ ہم دوسروں کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں‘ ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے والے لوگ ہیں اور ہماری ساری لیڈر شپ کی جڑیں ملک سے باہر ہیں‘

ان کی اولادیں اور گھر تک دوسرے ملکوں میں ہیں

چنانچہ ہم آج افغانستان سے لے کر روانڈا تک دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں‘ ہم سانس تک ادھار کی لیتے ہیں ‘ ہمیںروٹی بھی دوسرے فراہم کرتے ہیں۔
کاش ہم چین کے صدر شی چن پنگ سے عرض کرتے جناب آپ ہمیں 46 ارب ڈالر کے منصوبے نہ دیں‘ آپ ہمیں عزت کی روٹی کھانے اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کا درس دے دیں‘ آپ ہمیں مچھلی نہ دیں آپ ہمیں مچھلی پکڑے کا طریقہ سکھا دیں۔

کاش ہم چین کے لیڈر سے پاکستان کو چین بنانے کا گر سیکھ لیتے کیونکہ قوموں کو امداد اور سمجھوتے نہیں چاہئے ہوتے‘ انہیں عزت اور غیرت کی گھٹی درکار ہوتی ہے اور ہم نے آج تک کسی سے یہ دولت نہیں لی۔

ہم نے آج تک کسی قوم‘ کسی ملک سے یہ ہنر سیکھنے کی کوشش نہیں کی‘ آپ یقین کیجئے ہم 74 سال سے مردار خور اور بھکاریوں کی زندگی گزار رہے ہیں‘

ہم کبھی افغانستان میں امریکا اور روس کی پھینکی ہڈیاں چوستے ہیں‘

کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پنجر پر بیٹھ کر گوشت نوچتے ہیں اور

کبھی سعودی عرب یمن جنگ سے فائدہ اٹھانے کے منصوبے بناتے ہیں‘ دنیا جب ان تمام بحرانوں سے نکل جاتی ہے‘

یہ اپنے معاملات‘ اپنے مسائل حل کر لیتی ہے تو ہم کشکول بن کر دوستوں سے دوستی کی خیرات کی اپیل کرنے لگتے ہیں‘

ہم نے آج تک خود کو قوم سمجھا اور نہ ہی قوم کی طرح اپنی نسلوں کی پرورش کی‘ ہم 24 کروڑ بھکاری ہیں اور ہم ہر سال ان بھکاریوں میں پانچ دس لاکھ نئے بھکاریوں کا اضافہ کر دیتے ہیں اور یہ بھکاری بھی بڑے ہو کر اپنے بزرگوں کی طرح دنیا کی طرف دیکھنے لگتے ہیں‘

کاش ہم آج ہی جاگ جائیں‘ ہم آج ان 46 ارب ڈالروں کو آخری امداد‘ آخری سرمایہ کاری سمجھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر لیں‘

ہم یہ اعلان کر دیں‘ ہم دنیا کےلئے اگلا چین ثابت ہوں گے‘ ہم بیس تیس سال بعد وہاں ہوں گے جہاں دنیا ہمارے صدر کو وہ مقام دے گی جو ہم نے آج شی چن پنگ کو دیا‘ کاش ہم اپنے نیچے والے ہاتھ کو اوپر والا ہاتھ بنا لیں‘ کاش ہم پاکستان زندہ باد بن جائے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button