ناول : سوروں کی حکومت (مفھومی ترجمہ)
ناول : سوروں کی حکومت (مفھومی ترجمہ)
جارج اورویل کا ناول "اینمل فارم” ایک غیر معمولی تمثیلی کہانی ہے جو سیاسی اور سماجی حقیقتوں کو گہرائی سے بیان کرتی ہے۔ کہانی ایک فارم کے جانوروں کی بغاوت سے شروع ہوتی ہے، جو اپنے مالک مسٹر جونز کی لاپرواہی اور ظلم سے تنگ آ چکے ہوتے ہیں۔ فارم پر قابض ہونے کے بعد، جانور ایک مساوی معاشرتی نظام "اینملزم” قائم کرتے ہیں، جس کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ "تمام جانور برابر ہیں۔” اس نظام کا مقصد ہر جانور کو آزادی اور انصاف فراہم کرنا تھا۔
شروع میں فارم خوشحال دکھائی دیتا ہے۔ سب جانور مل کر کام کرتے ہیں، اور ان کی محنت کے نتائج بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اسنو بال، ایک ذہین اور مستقبل کی سوچ رکھنے والا سور، ونڈ مل بنانے کی تجویز دیتا ہے تاکہ فارم کی زندگی مزید آسان بنائی جا سکے۔ تاہم، نیپولین، جو ایک ظالم اور سازشی سور ہے، اسنو بال کی مخالفت کرتا ہے۔ آخر کار، نیپولین اپنے تربیت یافتہ خونخوار کتوں کے ذریعے اسنو بال کو فارم سے نکال دیتا ہے اور فارم کی مکمل حکمرانی اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔
وقت کے ساتھ، نیپولین کی حکومت آمرانہ ہو جاتی ہے۔ جانوروں پر سخت محنت مسلط کی جاتی ہے، جبکہ سور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ سات احکامات، جو شروع میں برابری کی ضمانت دیتے تھے، آہستہ آہستہ تبدیل کیے جاتے ہیں تاکہ سوروں کے اعمال کو جائز قرار دیا جا سکے۔ مثال کے طور پر، حکم "تمام جانور برابر ہیں” کو بدل کر "تمام جانور برابر ہیں، لیکن کچھ جانور زیادہ برابر ہیں” کر دیا جاتا ہے۔
ونڈ مل کی تعمیر ایک بڑی آزمائش ثابت ہوتی ہے۔ جانور سخت سردی اور بھوک کے باوجود نیپولین کے حکم پر ونڈ مل بناتے ہیں، لیکن جب یہ ایک طوفان میں تباہ ہو جاتی ہے، تو نیپولین اس کا الزام اسنو بال پر ڈال دیتا ہے، حالانکہ وہ فارم چھوڑ چکا ہوتا ہے۔ نیپولین اپنی حکمرانی کو مضبوط رکھنے کے لیے پروپیگنڈا اور جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، جس میں اسکویلر، اس کا قریبی ساتھی، پیش پیش ہوتا ہے۔ اسکویلر بار بار جانوروں کو یقین دلاتا ہے کہ نیپولین کی تمام پالیسیاں ان کی بھلائی کے لیے ہیں۔
کہانی کا سب سے دل دہلا دینے والا لمحہ اس وقت آتا ہے جب باکسر، ایک محنتی اور مخلص گھوڑا، اپنی جان قربان کر دیتا ہے۔ باکسر فارم کے لیے دن رات محنت کرتا ہے، لیکن جب وہ بیمار اور کمزور ہو جاتا ہے، تو نیپولین اسے علاج کے بہانے ایک گوشت کے کارخانے بیچ دیتا ہے۔ جانور اس دھوکے پر حیران رہ جاتے ہیں لیکن اتنے خوفزدہ ہیں کہ کچھ کر نہیں پاتے۔
آخر میں، سور مکمل طور پر انسانوں جیسے بن جاتے ہیں۔ وہ دو ٹانگوں پر چلتے ہیں، کپڑے پہنتے ہیں، اور انسانوں کے ساتھ دوستیاں کرتے ہیں۔ جانور جب کھڑکی سے جھانک کر دیکھتے ہیں، تو وہ حیران رہ جاتے ہیں کہ انسانوں اور سوروں میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ اس طرح کہانی اس تلخ حقیقت پر ختم ہوتی ہے کہ انقلاب کا خواب کرپشن اور طاقت کی ہوس میں تباہ ہو جاتا ہے۔
یہ کہانی دراصل سوویت یونین کے انقلاب اور اس کے بعد کے واقعات پر تنقید کرتی ہے، لیکن اس کے پیغامات ہر دور اور نظام کے لیے موزوں ہیں۔ یہ ناول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر طاقت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ ظلم اور استحصال کا ذریعہ بن سکتی ہے۔