ہوم اسکولنگ
بچوں کو گھروں پر تعلیم دینے کا قدیم طریقہ
اب جدید دورکی اہم ضرورت بن گیا
(حصہ اول)
تحریر: جواد عبدالمتین
اسلامک اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس
خود ہوم سکولر ہونے کے باوجود اس موضوع پر کچھ تحریر کرنے کا موقع نہیں مل سکا.
شاید اس لئے کہ یہ موضوع بہت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر مختلف زاویوں کو لئے ہوئے ہے۔
اسی لئے اس تحریر کو ایک سے زائد حصوں میں لکھنے کا ارادہ کیا ہے یہاں پہلا حصہ پیشِ خدمت ہے۔
اس موضوع پر بات کرنا اس لیے بھی نہایت ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ خود اپنے بچوں کے لئے اس طرزِتعلیم کو اپنائے 14 سال ہونے کو ہیں یعنی ہمارے بچے گھر پر ہی پڑھتے ہیں، انہیں ایک دن بھی سکول نہیں بھیجا، پھر بھی وہ کسی لحاظ سے سکول جانے والے بچوں سے کم نہیں ۔
دوسری وجہ یہ کہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے "اسلامک اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس” اور "بیت الحکمہ ایجوکیشن سسٹم” کے منصوبوں پر کام کرتے ہوئے اتنا تجربہ حاصل ہو گیا ہے کہ اب اس حوالے سے تمام سوالوں کے تسلی بخش جواب دیے جاسکتے ہیں۔
تیسری اور شاید سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اب ہوم سکولنگ یعنی بچوں کو گھر پر تعلیم دینا وقت کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ہماری مجبوری بھی بن چکا ہے، اب ضروری ہے کہ ہم بچوں کی تعلیم و تربیت کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لیں اور ہر گھر کو تعلیم اور تربیت کا سہولت مرکز بنا دیں۔
بچوں کو ضروری تعلیم دینے اور ہنر مند بنانے کے لیے اب انفرادی سطح پر کوششوں کو عام کرنا ہو گا۔ اگر آنے والی نسل کی تعمیر کا کام پھر انہی فرسودہ اور ناعاقبت اندیش تعلیمی اداروں کے حوالے کیا گیا تو اب تک جو نتائج نکلے ہیں آگے اس سے بھی بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔
رائج تعلیمی نظام سے حاصل ہونے والے نتائج پر اگر نظر ڈالی جائے تو اب ہم مزید اس مذاق کے متحمل نہیں ہو سکتے، جس کے نتیجے میں 75 سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے تعلیمی ادارے ایسی افرادی قوت پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں جو ملک کے معاشی اور معاشرتی مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکے یا ہماری مذہبی اور اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے میں مددگار ہو۔
مسلمانوں کے سنہری دور میں ہر گھر تعلیم اور تربیت کا مرکز تھا یعنی ہر خاندان اپنے بچوں کی بنیادی تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری خود اٹھاتا تھا اور جب بچے اس لائق ہو جاتے کہ وہ مزید علم اور فن کی تعلیم لے سکیں تو پھر ان کو پختہ ذہن اور اخلاقی تربیت کے بعد مقامی اساتذہ کے ذریعے مختلف مضامین اور ہنر کی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لئے بعض دفعہ لمبے سفر بھی کرنے پڑتے تھے کہ بنیادی تعلیم کے بعد اگر اس علاقے میں ماہر استاد دستیاب نہ ہوتے تو پھر دوسرے علاقوں کی طرف سفر کیا جاتا اور مختلف علوم اور فنون کی تعلیم حاصل کی جاتی اور اسی طرح ماہر افراد پیدا ہوتے۔
اور وہ ماہر افراد بھی کوئی ایسے ماہر نہیں تھے جیسے آج کے دور میں ہوتے ہیں بلکہ اُن کی تو علمی اور فنی مہارت کے اثرات صدیوں تک قائم رہے اور آج بھی ان کے نام اور کام جانے جاتے ہیں۔
دوسری طرف اگر ہمارے ہاں آج کے جدید تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا جائے جو تمام جدید سہولیات کے حامل ہونے کے باوجود ایسی ناکارہ اور معذور ذہنیت والی افرادی قوت تیار کر رہے ہیں جو نہ اپنے کسی کام کی ہے اور نہ اپنی قوم کے۔
ان کی سوچ اور فکر صرف مادیت پرستی پر مبنی ہے اور یہ صرف مال کمانے کا ذہن لے کر ان داروں سے نکلتے ہیں۔ ان کی توجہ کا مرکز صرف ایسی نوکری تلاش کرنا ہوتا ہے جس سے یہ اپنی اور اپنے کنبے کی زندگی کو آسان بنا سکیں، بس اس سے آگے کی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔
اس تعلیمی نظام کے نتائج دیکھ کر واضح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام یعنی کیپٹلسٹ سسٹم کے لئے ایسے افراد تیار کر رہے ہیں جو سر جھکا کر زندگی گزارنےکے لئے تیار ہوں، نہ کوئی سوال کریں اور نہ کسی مسئلے کی نشاندہی کرکے اس کا خود سے حل تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں
یورپ امریکہ اور برطانیہ میں بچوں کو گھروں پر تعلیم دینے یعنی ہوم سکولنگ کا رجحان پچھلی پانچ دہائیوں میں بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ جس کی ابتدا ستر کی دہائی میں جان ہالٹ کی چلائی گئی تحریک سے ہوئی تھی، اسی لئے جان ہالٹ کو امریکہ میں Father of Home Schooling کہا جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس حوالے سے لوگوں کی بڑی تعداد کے رجحان کے پیش نظر وہاں کی حکومت کی طرف سے مختلف سہولیات بھی فراہم کی جاتی رہیں اور قانون سازی کا کام بھی کیا گیا، کہ اگر والدین بچوں کو اسکول بھیجنے سے مطمئن نہیں تو وہ گھروں پر انہیں آزادی سے تعلیم دے سکتے ہیں۔
بعض جگہوں پروالدین بالکل آزاد ہیں کہ وہ جیسے چاہیں انہیں پڑھائیں اور بعض جگہوں پر اس حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں کہ کچھ مضامین پڑھانے لازمی ہیں اگرچہ وہ گھر پر ہی پڑھائے جائیں۔
جیسا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ تو پانچ دہائیوں سے بچوں کو گھروں پر تعلیم دینے کے خیال سے نہ صرف کے متعارف ہیں بلکہ آزادی کے ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس رائج تعلیمی نظام میں بچوں کو داخل کرنے کے علاوہ تعلیم دینے کا اور کوئی طریقہ میسر نہیں اور وہ اسی کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
جبکہ وہ یہ جانتے بھی ہیں کہ اس رائج تعلیمی نظام کے ساتھ چلنے کا معاشی بوجھ اب وہ نہیں اٹھا سکتے اور اس نظام سے گزرنے کے بعد کوئی یقینی صورت معاشی استحکام کی بھی نہیں ہے۔
تحریر کو مختصر کرنے کے لئے یہیں بات ختم کرتا ہوں اور اسی تحریر کے اگلے حصوں میں اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنے کا ارادہ ہے تاکہ جو لوگ اپنے بچوں کو اس رائج تعلیمی نظام میں رکھنے کے متحمل نہیں وہ متبادل طریقہ کار جان سکیں اور اس کو آسانی سے اختیار کرسکیں۔
ان شاء اللہ
بس آپ حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے ذہن کو آزاد کریں اور اپنی آنکھوں اور کانوں کو کھول کر اپنے اندر زمینی حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی اہلیت پیدا کریں،