بیلے پر رات
انجنئر ظفر اقبال وٹو
(پہلا حصہ )
جون کی گرم رات میں بھی ھم سردی اور خوف سے کپکپکا رھے تھےـ دریا میں موجود چھوٹا سا بیلا اس وقت ھماری کل کاٰینات تھی جس پر قایم خان، میں اورناصرڈراییٔور پناہ لیے ھویٔے تھے۔ بیلے کے ھر طرف سیلابی پانی چکر لگا کر ھمیں ڈھونڈ رھا تھا۔ ھم نے بلوچستان کے نخریلے دریائے ناڑی سے ٹکر لی تھی اور وہ بہت غصے میں تھا۔ اس نے ھمارے پاوں تلے سے زمین چھین لی تھی۔ کبھی کبھارپانی کی کویٔ جوشیلی موج بلند ہو کے ھمیں یوں تلاش کرتی جیسے تیراکی کے مقابلے میں پانی سے سر اٹھا کر تیراک اپنے اور یدف کے درمیان باقی رہ جانے والے فاصلے کا اندازہ کر رہا ھواور جلد اپنے یدف کو پا لینا چایتا ھوـ -“آبیات “کا طالب علم تک یہ بات بخوبی جانتا ھے کہ ’پانی سے لڑنا نہیں۔ ڈرنا ھے’’۔ لیکن اس دن ھم نے ناڑی کو آسان لے لیا تھا۔
محکمہ زراعت کے سیکریٹری کے حکم نامے کے تعمیل میں ھم پچھلے پندرہ دن سے شمالی بلوچستان کے اضلاع ژوب، موسی خیل سے ھوتے ھوئے لورالایٗی کی تحصیل میختر میں صدارتی پروگرام کے تحت بنایٗ گئی سکیموں کا معاینہ کر رہے تھے۔ صاحب لوگوں کی ناراضگی سے بچنے کے لیے میں اپنی تین دن کی نومولود ’اریبہ’ کو کوئٹہ میں چھوڑ کردورے پر نکلا تھا اور کام کو نپٹا کر جلدی واپس جانا چاھتا تھا۔
انامبار ندی کے دایئں کنارے پر آخری سکیم کو دیکھتے ھویے مغرب ھو گیٔ جس کے بعد ھمارا قافلہ لورایٔی کی طرف روانہ ھوا۔ ناڑی پر کچے راستے سے پکی سڑک کا فاصلہ کویئ پچیس سے تیس کلومیٹر تھا جو کہ سارے کا سارا پیاڑی ڈھلوان پر تھا اور جنگلی بوٹوں سے اٹا پڑا تھا۔
“فورٹ منرو جانے والی سڑک کے پل تک جانے والی سڑک تک پہنچنے میں گھنٹا لگ جائے گا- ناڑی کو کچے سے ہی کراس کر لو- دیکھو پانی نہ ہونے کے برابر ہے” ہم نے امیر کارواں کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ڈرائیور کو حکم دیا-
پچھلی سیٹ پر بیٹھے احمد جان نے مخالفت تو نہیں کی لیکن گاڑی شیشہ نیچے کرکے باہر کی فضا میں ایک لمبی سائنس اپنے اندر کھینچی اور پھر جلدی سے بولا” سر- اوپر کہیں بارش ہوئی ہے- دریا میں گاڑی نہیں ڈالنی چاہئے-“ اس کے برابر بیٹھے فیض اللہ نے بھی اس کی تائید کی- دونوں مقامی انجنئیر تھے- لیکن میں ان کی رائے نظر انداز کردی- انہوں نے صاحب کا موڈ بھانپتے ہوئے کہا “ٹھیک ہے سر- ہم دونوں گاڑی سے اتر کر پیدل دریا عبور کرتے ہیں- آپ کا ڈرائیور ہمیں غور سے دیکھتا رہے اور پھر گاڑی ہمارے پیدل چلنے والے رستے پر لے آئے”
رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا اور ڈرائیور نے گاڑی کی بتیاں فل کرکے پانی پر ڈال دی تھیں جس کی روشنی میں وہ دونوں دریا میں زگ زیگ پیدل چلنے لگے- پانی سے منعکس ہوتی روشنی کا عکس ارد گرد کی پہاڑیوں پر پڑ کر ماحول کو اور ہیبت ناک بنا رہا تھا- اس سے پہلے کہ وہ دریا کو پار کر لیتے میرے ڈرائیور نے ماحول کی دہشت سے گھبراہٹ کر گاڑی کو ان کے پیچھے پانی میں ڈال دیا-انہوں نے حیرت سے مڑ کڑ دیکھا اور زور زور سے ڈرائیور کو رکنے کا کہا- ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ پہآڑوں سے ٹکرا کر واپس گونج رہی تھی مگر ناصر اپنی پانچ دروازوں والی گہرے سبز رنگ کی پراڈو کو ان طرف بھگاتا ہی گیا- گہرے پانی میں جا کر گاڑی پھسلنےلگی – دوسری طرف احمد جان اور فیض اللہ دوڑ کر ہماری گاڑی کے پاس پہنچ چکے تھے- اور بار بار ڈرائیور کو ریس بند کرنے کا کہ رہے تھے-
پھر وہ ہوا جو صرف ڈسکوری چینل پر ہی دیکھنے کو ملتا ہے- ہماری پانچ دروازوں والی “ساوی گھوڑی “ کو کسی نے نیچے سے اوپر اچھا لا تھا اور اب یہ لٹو کی طرح پانی کی سطح پر تیزی سے دائرے میں گھوم رہی تھی- ہمیں لگ رہا تھا جیسے ہم بچوں کے پارک میں گھومنے والی پیالیوں پر جھولے کھا رہے ہیں- دائرے میں گھومتی اس کی روشنیاں کبھی پانی اور کبھی دور پہاڑوں پر پڑ رہی تھیں- اور اس کے پچھلے دروازے کے پائیدانوں کے ساتھ لٹکےہمارے دونوں مقامی دوست گاڈی سے یوں ٹکرا رہے تھے جیسے ڈگڈگی کی رسیاں اس کے تنے ہوئے چمڑے پر پڑ رہی ہوتی ہیں-
پہاڑی سیلابی پانی کے بڑے سیلابی ریلے نے ہمیں انجانے میں دبوچ لیا تھا ۔۔۔(جاری ہے)