کوکنگ آئل اور اس کی مانگ
مرشد مسعود قاضی بفیلو امریکہ
دنیا بھر میں اس وقت کوکنگ آئل کے
Raw material
کی شدید قلت ہے اور کوکنگ آئل کی سپلائ کم اور ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے
پاکستانی کسانوں ، زمینداروں اور
Growers
سے گزارش ہے کہ زیادہ سے زیادہ سویا بین کی کاشت کریں
سویا بین سے کوکنگ آئل کے علاوہ ایک سو کے قریب پراڈکٹس بن سکتی ہیں
سویا بین کا دودھ گاۓ کے دودھ کا بہترین متبادل ہے اور اس دودھ سے دھی اور پنیر تک بن سکتی ہے
سویا بین کی پراڈکٹس کی لسٹ کمنٹس میں دیکھیں
سویا بین ایک بڑی کارآمد اور منافع بخش فصل ہے۔ اس کی کاشت دنیا کے ترقی یا فتہ ممالک مثلاً امریکہ، چین، جاپان اور برازیل میں بہت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ سویا بین پھلی دار اجناس مثلاً لوبیا، ماش، مونگ، برسیم اور گوارا کے خاندان کی ایک اہم رکن ہے اور زمین میں پائے جانے والے جرثومے (بیکٹیریا) اسکے پودوں کی جڑوں پر گانٹھیں(Nodules)بناتے ہیں۔ ان گانٹھوں میں پائے جانے والے جرثومے ہوائی نائٹروجن کو اپنے اندر جذب کرتے رہتے ہیں۔ جس سے سویابین کی فصل بذات خود اس کے بعد آنے والی فصل کے لیے بھی ایک چھوٹی کھاد فیکٹری کے طور پر کام آتی ہے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ اپنے بعد آنے والی فصل کے لیے بھی ایک بوری یوریا فی ایکڑ کے برابر نائٹروجن زمین میں چھوڑتی ہے۔ یہ ایک واحد روغن دار فصل ہے جو زمین کی زرخیزی کو بحال رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ اسے واپس لوٹاتی ہے۔ سویا بین میں18فیصد اجزاءتیل اور وافر مقدار میں حیاتین پائے جاتے ہیں۔ اس کا تیل کھانے کے لیے انتہائی مفید ہے۔ اس کے علاوہ سویا بین انسانی خوراک میں بطور سویا دودھ، سویا مکھن ڈیری کی ان گنت اشیاءمیں استعمال ہوتی ہیں۔ اس کا آٹا ذیابیطس کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ سویا بین کا تعلق پھلی دار اجناس کے خاندان سے ہونے کی وجہ سے اس کی کاشت سے زمین کی زرخیزی بڑھانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ موسم خزاں میں سویا بین کی فصل تقریباً 3ماہ میں پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ اس لیے اسے بڑی آسانی سے فصلوں کے ہیر پھیر میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً
٭گندم،سویا بین، گندم ٭بہاریہ سورج مکھی،سویا بین،گندم ٭بہاریہ مکئی،سویا بین،گندم
فصلوں کے مذکورہ ہیر پھیر کے تحت پاکستان میں سویا بین کی کاشت کے امکانات بہت روشن ہیں۔ لہٰذا خوردنی تیل میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے سویا بین کی کاشت زیادہ سے زیادہ رقبہ پر کرنی چاہیے۔ کاشتکاروں کی راہنمائی کے لیے اس کی کاشت سے متعلق ضروری گزارشات درج ذیل ہیں:
آب و ہوا
یہ فصل درجہ حرارت، روشنی، نمی اور دیگر موسمی تبدیلیوں سے بہت حد تک متاثر ہوتی ہے۔ سویا بین کی کامیاب فصل کے لیے گرم مرطوب آب و ہوا کی ضرورت ہے۔ تاہم پنجاب کے بیشتر علاقوں میں کامیابی سے کاشت کی جاتی ہے۔
زمین اور اس کی تیاری
سویا بین معتدل یا ہلکی تیزابی صلاحیت رکھنے والی میرا زمین پر بہت اچھی پیداوار دیتی ہے لیکن نسبتاً کمزور یا ریتلی میرا زمین میں کھاد کے استعمال سے اس کی کاشت کامیابی سے ہو سکتی ہے۔ سیم زدہ، کلراٹھی اور نشیبی زمین اس کی کاشت کے لیے غیر موزوں ہے۔ اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لیے زمین کو راو ¿نی کے بعد مناسب وتر آنے پر تین سے چار دفعہ ہل چلا کر اور دوہرا سہاگہ دے کر اچھی طرح بھربھرا کر لینا چاہیے۔ اچھی طرح ہل چلانے اور دوہرا سہاگہ دینے سے زمین نرم ہو جاتی ہے اور دیر تک وتر قائم رکھنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
وقت کاشت
زیادہ بارش والے علاقوں میں جب گرمی کم ہو جائے اور ہوا میں نمی کی مقدار بڑھ جائے یعنی جولائی کے شروع میں مون سون کی پہلی بارش کے بعد سویا بین کی کاشت کر دینی چاہیے۔ زیادہ گرم علاقوں میں جون اور جولائی میں کاشت کی گئی فصل پر زرد موزیک کی بیماری کے حملے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس لیے ان علاقوں میں جب گرمی کم ہو جائے تو اگست کے شروع میں اس کی کاشت کر دینی چاہیے۔ موسم خزاں میں پودا چار سے پانچ دن بعد زمین سے باہر نکل آتا ہے۔ اس کے بعد کاشت کی گئی فصل نومبر یا دسمبر کے مہینے میں کم درجہ حرارت کی وجہ سے دیر سے پکتی ہے اور پودوں کی نشوونما بھی کم ہو جاتی ہے جس سے پیداوار میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جاتی ہے اور اس کے بعد گندم کی بجائی بھی مشکل ہوجاتی ہے۔ فیصل آباد میں کیے گئے تجربات کے مطابق اگست کے مہینے میں کاشت کی گئی فصل سے15سے20من فی ایکڑ تک پیداوار حاصل کی گئی۔
طریقہ کاشت
سویابین کا بہتر اگاو حاصل کرنے کے لیے اس کی بوائی کپاس بونے والی سنگل رو کاٹن ڈرل سے کرنی چاہیے۔ دوپہر کے وقت زیادہ گرمی اور گرم ہوا چلنے سے وتر خشک ہو جاتا ہے اور اگاو کم ہوتا ہے۔ سویا بین کی کاشت قطاروں میں کرنی چاہیے اور قطاروں کا درمیانی فاصلہ ڈیڑھ فٹ ہونا چاہیے اور پودوں کا درمیانی فاصلہ3سے5انچ ہونا چاہیے۔ اس طرح پودوں کی صحیح تعداد حاصل ہوتی ہے جو اچھی پیداوار کی ضامن ہے۔
شرح بیج
موسم خزاں میں چونکہ درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے جس سے وتر جلد خشک ہو جاتا اور اگاو ¿ کم ہو تا ہے۔ اس لیے اس موسم میں40سے45کلو گرام بیج فی ایکڑ ڈالناچاہیے۔ بیج کی قسم، قوت روئیدیگ، وقتِ کاشت ، موسمی حالات اور زمین کی زرخیزی کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح بیج میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ بوائی سے قبل بیج کی مدت روئیدگی اچھی طرح پرکھ لینی چاہیے جو 90سے100فیصد ہونی چاہیے۔ زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے بیج کو جراثیمی ٹیکہ لگا کر کاشت کرنا چاہیے تا کہ ہوائی نائٹروجن جذب کرنے والے جرثومے(بیکٹیریا) پودوں کی جڑوں پر گانٹھیں(Nodules)بنا کر اپنا عمل مو ¿ثر طور پر کر سکیں۔ اس طرح جذب شدہ نائٹروجن سے سویا بین کی فصل بذات خود اور اس کے بعد آنے والی فصل بھی مستفید ہوتی ہے۔ روئیدگی کے فوراً بعد حملہ کرنے والی بیماریوں سے بچاو ¿ کے لیے بیج بحساب2گرام فی کلو گرام بنلیٹ لگا کر بوائی کرنی چاہیے۔
کھاد کا استعمال
سویا بین کے لیے کھاد کی مقدار کا دارومدار زمین کی قسم، زمین کی زرخیزی اور سابقہ فصل پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نائٹروجن اور فاسفورس میں تناسب کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ موسم خزاں میں نائٹروجن اور فاسفورس کا تناسب 50:25ہونا چاہیے۔ جوایک بوری یوریا اورپانچ بوری سنگل سپر فاسفیٹ سے حاصل ہوتا ہے جو کہ بوائی کے وقت زمین میں ڈالنا چاہیے۔سویا بین کے لیے نائٹروجن کھاد کی زیادہ ضرورت نہیں ہے کیوں کہ زمین کے اندر ایسے جرثومے( بیکٹیریا) موجود ہوتے ہیں جو خلاءمیں موجود نائٹروجن کو زمین میں مکس(Mix) کرتے ہیں اور اپنی ضروری پوری کر لیتی ہے۔ اپنی ضروری پوری کرنے کے بعد علاوہ ازیں بعد میںآنے والی فصل کے لیے بھی ایک بوری یوریا فی ایکڑ کے برابر نائٹروجن زمین میں چھوڑتی ہے۔
آبپاشی
اگر گرمی کی شدت سے پودے مرجھاتے نظر آئیں تو پانی لگائیں۔ اس طرح ایک تو فصل کی بڑھوتری زیادہ نہ ہو گی دوسرے جڑی بوٹیوں کا اگاو ¿ دیر سے ہوگا۔ اگر پہلا پانی پھول آنے پر دیر سے لگائیں تو نتائج بہتر حاصل ہوتے ہیں۔ البتہ پھول آنے پر پانی کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ لہٰذا پہلا پانی اگنے کے3سے4ہفتے بعد لگائیں۔ دوسرا پانی پھلیاں بننے پر اور تیسرا پانی اگر ضرورت ہو تو دانے بننے پر لگائیں۔ اگر زمین میں دیر تک وتر قائم رہے تو تیسرے پانی کی زیادہ ضرورت نہیں رہتی۔
جڑی بوٹیوں کی تلفی
کھیت سے جڑی بوٹیوں کی تلفی انتہائی ضروری ہے۔ کوئی بھی فصل جڑی بوٹیوں کی تلفی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی بلکہ بعض حالات میں مکمل طور پر ناکام ہو جاتی ہے اور زمیندار کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ یہی حال سویا بین کا ہے۔ اس فصل میں ڈیلا، کھبل، اٹ سٹ، چلائی، مدھانا گھاس کے علاوہ دیگر جڑی بوٹیاں بھی بہتات سے اگتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لیے مندرجہ ذیل سفارشات تحریر کی جاتی ہیں:
گوڈی
پہلی گوڈی پہلے پانی کے بعد کسولے سے کرنی چاہیے اور دوسری گوڈی دوسرے پانی کے بعد ہل کے ذریعے بھی کی جاسکتی ہے۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی نہایت ضروری ہے۔ ان کو ہر قیمت پر تلف کریں خواہ ہاتھ سے نکالیں یہی اصل نقصان پہنچاتی ہیں۔
کیمیاوی تلفی
اٹ سٹ کا مسئلہ شدید ہو تو راو ¿نی سے پہلے پنڈی میتھالین330سی سی بحساب1.25فی ایکڑ سپرے کریں۔ اگر ڈیلے کی کثرت ہو تو ڈیوال گولڈ بحساب800سی سی فی ایکڑ کے حساب سے فوراً بعد وتر خشک ہونے سے پہلے سپرے کریں۔ سپرے کے لیے120لیٹر پانی فی ایکڑ استعمال کریں۔ نیز یہ دونوں ادویات ملا کر سپرے نہ کریں۔
کیڑے مکوڑے اور بیماریاں
موسم خزاں میں سویا بین کی فصل پر مندرجہ ذیل کیڑے مکوڑے اور بیماریاں حملہ کرتی ہیں۔
تیلہ اور سفید مکھی
یہ دونوں کیڑے پتوں کا رس چوس کر پودوں کو کمزور کر دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں سفید مکھی زرد موزیک کی بیماری کو ایک پودے سے دوسرے پودے تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان کے تدارک کے لیے میٹا سٹاکس بحساب500سی سی فی ایکڑ سپرے کرنا چاہیے۔ کیڑے مکوڑوں کے کنٹرول کے سلسلہ میں اپنے علاقہ کے محکمہ زراعت(توسیع) کے عملہ سے رہنمائی حاصل کریں۔
۲ بائیو فرٹیلائزر یا جراثیمی ٹیکہ
1/2کلو گرام بیج کے اوپر لگایا جاتا ہے۔ اس میں بیکٹیریا ہوتے ہیں جو پودوں کی جڑوں کے اندر چلے جاتے ہیں اور ہوا کی نائٹروجن کو جذب کر کے پودے کے قابل استعمال بناتے ہیں۔1/2کلو گرام ایک ایکڑ کے لیے کافی ہے۔NARCمیں Soil Biology کے سیکشن میں بنتا ہے اور اس کی قیمت صرف100روپے فی پیکٹ ہے۔
برداشت
خریف کی فصل90سے120دن میں پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ برداشت کے وقت درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے بیج کی نشوونما صحیح ہوتی ہے۔ سویابین کے بیج کو مناسب درجہ حرارت پر سٹور کرنا چاہیے تا کہ اس کی روئیدگی متاثر نہ ہو۔ فصل پکنے پر پتے زرد ہو کر جھڑ جاتے ہیں اور پھلیوں کا رنگ خاکستری بھورا ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے پر دانوں میں نمی تقریباً15فیصد تک ہو جاتی ہے۔ جب یہ علامات ظاہر ہو جائیں تو فصل کی برداشت میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ فصل کو کاٹ کر چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کی شکل میں دھوپ میں خشک کرنے کے بعد ایک جگہ اکٹھا کر کے اس کی گہائی ٹریکٹر یا تھریشر سے کرنی چاہیے۔
بیج کا ذخیرہ
عام حالات میں پرانے بیج کی قوت روئیدگی کافی حد تک ضائع ہو جاتی ہے اس لیے یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ ذخیرہ کرتے وقت بیج میں نمی10فیصد سے زائد نہیں ہونی ۔۔چاہیے اور اسے نسبتاً ٹھنڈی اور ہوادار جگہ پر ذخیرہ کرنا چاہیے