گر سچے ہوں حکمران
Usman EM
جن قوموں کے حکمران اپنے وطن کو اپنا وطن سمجھتے ہوں، اور اپنی قوم کے خیر خواہ ہوں وہ اپنے اثاثوں اور اپنی انفرادیت کو کیش کرنے اچھی طرح جانتے ہیں۔
اور جن قوموں کے حکمران غیر ممالک کو اپنا وطن سمجھتے ہوں، ان حکمرانوں کے تحت پنپنے والے معاشروں میں کوئی بھی کچھ بھی اٹھا کے لے جائے۔ وہ اس وجہ سے کہ ناانصافی پست کردار کو پروان چڑھاتی ہے، اور لوگوں کو خریدنا اور ان کے ذریعے کچھ بھی اٹھا لے جانا آسان ہو جاتا ہے۔
چین کے حکمران ہمارے حق میں بہت ظالم ہیں، لیکن اپنے ملک، اپنے وطن اور اپنی اقدار کے لیے بہت ہی سیانے ہیں اور اس کے محافظ ہیں۔ اسی لیے اپنی یونیق، یعنی منفرد چیزوں کو کیش کرنا جانتے ہیں۔
دنیا کے بہت سے ممالک میں منفرد وسائل پائے جاتے ہیں جو ان ہی ممالک تک محدود ہیں۔ ان میں سے ایک پانڈا بھی ہے، جو ریچھ کی ہی ایک قسم ہے۔ چین نے یقینی بنایا کہ چین سے پانڈا خرید کر یا چوری کر کے لے جانا ممکن نہ ہو۔ اور یوں چین نے اس منفرد جانور (جو دنیا میں کہیں اور نہیں پایا جاتا تھا) کو بیچنے کے لیے نہیں، بلکہ کرائے پر دینے کا کام شروع کیا۔
کرائے پر دینے کی وجہہ
کرائے پر دینے سے ملکیت چین کے پاس ہی رہتی ہے، جبکہ اقساط میں کرایہ وصول کر کے یہ زیادہ دولت اکٹھی کر لیتے ہیں۔
ایک پانڈا کا صرف ایک سال کا کرایہ ایک ملین ڈالر ہوتا ہے، یعنی تقریباً 20 کروڑ روپے۔ جبکہ کرائے کا یہ معاہدہ دس سال کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ چین صرف ایک پانڈا کو کرائے پر دے کر دس ملین ڈالرز حاصل کر لیتا ہے، اور ملکیت پھر بھی چین کے پاس ہی رہتی ہے۔ جبکہ ایسے سینکڑوں ہزاروں پانڈا دنیا کے چڑیا گھروں کو کرایہ پر دے رکھے ہیں۔
حکمران اور نظام سیدھا ہو جائے تو سب کچھ سیدھا ہو جاتا ہے۔ ورنہ چند ملین ڈالرز کی خاطر دو دو ٹکے کے بے غیرت حکمران کبھی فرانس جیسے غنڈہ ملک کا بائیکاٹ کرنے پر تجارتی نقصان کے ڈراوے دیتے ہیں اور کبھی بھیک مانگنے کے فضائل بیان کرتے اور مساوات اور انصاف کے نظام کے ذریعہ اپنی استعداد بڑھانے کی بجائے ایک روٹی چار بھائیوں میں تقسیم کرنے کے فضائل بیان کرتے پھرتے ہیں۔