Agriculture & Water resources.

دریائے سندھ کا پاکستان پر راج طے ہو چکا

انجنئیر ظفر وٹو

کراچی تا پشاور جی ٹی روڈ بالخصوص لاہور تا راولپنڈی پر قیام پاکستان کے وقت سے ہی ملک کے زیادہ تر بڑے شہر ، صنعتیں اور زرعی فارمز قائم ہوتے رہے ہیں۔ اس ترقی کی وجہ سے اکثر جج، جرنیل ، بیوروکریٹ اور سرمایہ داروں کا تعلق جی ٹی روڈ پر واقع ان علاقوں سے رہا ہے اور آج تک جی ٹی روڈ والے ہی پاکستان پر حکومت کرتے رہے ہیں۔

تاہم پانی کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر مستقبل کا جی ٹی روڈ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر آباد علاقے ہوں گے اور دریائے سندھ ہی پاکستان پر راج کرے گا۔ یہ دریا پاکستان کے کل رقبے کے تقریباً دس فی صد پر اس وقت بھی اپنا دعوی رکھتا ہے لیکن اس کی اہمیت کو ہمیشہ سے انڈر ایسٹیمیٹ کیا گیا ہے۔

پڑوسی ملکوں بشمول انڈیا، چین اور افغانستان کی طرف سے پاکستان کے دریاؤں کے پانی روکے جانے، ہمارے مبنی بر غفلت ریسپانس اور گلوبل وارمنگ کے باوجود دریائے سندھ واحد پاکستانی دریا ہوگا جو انشااللہ بہتا رہے گا۔

دریائے سندھ کے طاس کا جو علاقہ پاکستان میں ہے اس پر ہونے والی بارشوں کاپانی کم از کم ہمیں بلا روک ٹوک ضرور ملتا رہے گا اور اس نیلے تیل کی یہی طاقت بھارت کو بھی ہمارےبند کئے گئے دریاؤں یا کم ازکم ایک دریا میں پانی دوبارہ چھوڑے پر ضرور مجبور کرسکتی ہے ( آخر تک پڑھ لیں)

مستقبل میں مشرقی دریاؤں کے بند ہونےسے ہونے والی پانی کی کمی بالآخر آہستہ آہستہ آبادی، صنعتوں، زراعت اور ہر قسم کی زندگی کو دریائے سندھ کے کناروں تک کھینچ لائے گی جہاں بڑی بڑی بستیاں آباد ہوں گی۔اٹھارہ انیس سال کی عمر کے جو بچے یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں وہ اگر ان علاقوں میں اپنا مستقبل (رہائش اور کام) تلاش لیں تو دعائیں دیں گے انشااللہ۔

اس تبدیلی کے ساتھ ہی ایک بڑا چیلنج دریائے سندھ کے کناروں پر ہونے والی اتنی زیادہ آبادی سے پیدا ہونے والی دریائی آلودگی ہوگی جسے اس وقت لاہور کے قریب دریائے راوی میں دیکھا جاسکتا جو ہروقت سیوریج کے نالے کا منظر ہیش کرتا ہے۔تاہم یہی مستقبل کا کامیاب بزنس بھی ہوگا یعنی گندے پانی کی صفائی والے پلانٹس۔

دریائے سندھ میں شمالی پہاڑی علاقوں میں موجود ہائیڈرو پاور اسٹیشنوں کے ساتھ ساتھ میدانی علاقے میں بھی رواں دریا سے بجلی (رن آف رور ہائیڈرو پاور) کا بہت زیادہ پوٹینشئیل ہے جس پر بوجوہ آنکھیں بند کی جاتی ہیں۔ یہ مستقبل کی آبادی کا ایک بہت بڑا ذریعہ توانائی ہوگا اور اس میں مہارت رکھنے والی کمپنیاں خوب ترقی کریں گی۔

دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ پنجاب میں کوہ سلیمان اور سندھ میں کیرتھر کے پہاڑ چلتے ہیں ۔ جہاں یہ پہاڑی سلسلے دریا کے بالکل قرب ہیں وہاں پمپ اسٹوریج ہائیڈروپاور کا قدرتی پوٹینشئیل موجود ہے جو ہماری بجلی کی پیک ڈیمانڈ کو پورا کرسکتا ہے۔ چشمہ جھیل کے دائیں کنارے پر تو یہ پوٹنشئیل اس وقت زور سے پکار رہا ہے کہ ۔۔“او بے خبرو عقل سے کام لو “۔۔۔مگر تاحال اس پوٹینشئل کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔

دریائے سندھ کی اپنے سیلابی میدانوں اور تہہ کے اندر ہانی ذخیرہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے جسے کام میں لاکر بڑے ڈیموں پر نہ صرف انحصار کم کیا جا سکتا ہے بلکہ دریا کے ایکو سسٹم کو بہتر بنا کر زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند کی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لئے کنکریٹ کے بڑے اسٹرکچر بنانے کی بجائے دریا کے اندر نباتاتی اسٹرکچر یا واٹر فرنٹس بنائے جانے چاہئیں ۔

سندھ دریا کے ہر کلومیٹر پر ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ایسے درختوں کی ایک پٹی ہو جو ہر وقت پانی میں پلتے ہوں اور پانی کا دباو برداشت کر سکیں ( مینگروز کی طرح) اس پٹی کے درمیان میں پانی کے لئے ایک چھوٹا سا راستہ ہو۔ یہ درخت ہروقت اپنے پیچھے پانی کو روک کر ایک چھوٹی سی جھیل بنائے رکھیں گے اور تھوڑا تھوڑا پانی آگے بھیجتے رہیں گے۔

اس طرح کی ہزاروں چھوٹی جھیلیں جو کئی کلومیٹر چوڑی ہوں گی کئی کئی لاکھ ایکڑ فٹ بہتے پانی کو ہروقت ذخیرہ کئے رکھیں گی گئی۔ اسے آپ موبائل ڈیم کہہ سکتے ہیں۔

جو لوگ اس کے سائز کو سمجھنا چاہیں وہ یہ اندازہ لگائیں کہ ۲۰۱۰ کے سیلاب میں دریائے سندھ اور باقی دریاؤں کے کنارے سیلاب سے متاثر ہونے والے نشیبی علاقوں کا رقبہ ایک لاکھ اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ تھا جو پاکستان کے کل زمینی رقبے کا ا/۵ تھا۔

ہمارے ہاں دریاؤں میں مون سون کے سیلاب کو ایک “موقع” کی بجائے ہمیشہ ایک “ تباہی “ہی سمجھا گیا ہے اور مضحکہ خیز طور پر ہمارے ہاں ۲۰۱۰ کے سیلاب کے بعد فلڈ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز بنا دی گئیں۔ جنہوں نے دریا کے کنارے سیلاب سے بچنے والے بند بنانے کو ہی مسئلے کا حل جانا۔ حالانکہ سیلاب تو ہر سال پانی کو استعمال کرنے کا ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے اور ہمیں تو “فلڈ اپر چیونٹی منیجمنٹ اتھارٹیز” بنانی چاہئیں تھیں۔ دریائے سندھ کے سیلابی پانی کو چشمہ جہلم لنک کینال سے صحرائے تھل، میلسی سائفن کے ذریعے صحرائے چولستان اور سکھر بیراج سے صحرائے تھر میں بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔

دریا کنارے بنائے گئے فلڈ بند اور آبادیاں سیلابوں کی شدت اور ان سے ہونے والی تباہی کو اور بڑھا دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں قدرت کے رنگ میں رنگ جانے کی بالکل عادت نہیں کیونکہ اگر دریا کے سیلابی میدانوں میں آبادیاں بنانی ہی تھیں تو بنگلہ دیش کے نشیبی علاقوں کی طرح سیلابی پانی کی سطح سے اوپر معلق گھر بنا ئے جاتے اور آبی آمدورفت کے راستے بنا دئے جاتے جہاں سیلاب کے دوران دریا کے پانی کو باہر نکل کر اپنی قدرتی سیلابی میدانوں پر چلنے پھیلنے کی آزادی ہوتی اور یوں ایک زرخیز زرعی مٹی کہ تہہ بھی ہر سال بچے جاتی۔

دریائے سندھ کے ساتھ دائیں بائیں متروک یا بنجر نشیبی علاقوں کو دریا کے ساتھ ایک چینل (نالے) سے منسلک کرکے ہزاروں کی تعداد میں آف لائن اسٹور جز ( دریا سے کٹی ہوئی جھیلیں) بنائی جاسکتی ہیں جو کہ سیلاب کے دنوں میں دریا میں پانی چڑھنے سے بھر جائیں گی اور پانی اترنے پر جھیل بن جائیں۔

دریائے سندھ کے نیوی گیشن روٹ۔۔۔۔رن آف رور ہائیڈرو پاور۔۔۔۔ اور متواتر جھیلوں کے نظام ۔۔۔۔کو اگر اکٹھا کر کے کیا جائے تو کمپاونڈ ایفیکیٹ سے فوائد کئی گنا بڑھ جائیں گے۔

دنیا بھر میں دریا آمدورفت کے ایک سستے ترین ذریعے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں دریاؤں کو آبی گزرگاہ بنانے کی طرف کبھی سوچا نہیں گیا حالانکہ اس کے استعمال سے سڑکوں پر مال بردار ٹرکوں کا رش کافی حد تک کم ہوسکتا جس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کم ہو گی بلکہ سڑکوں کی تعمیر اور مرمت پر ہونے والا خرچ بھی بچ سکتا ہے۔حیرت ہے سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے دماغوں نے سڑکوں اور ریلوے کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ میں نیوی گیشن کے منصوبے کا بالکل نہیں سوچا۔

ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہمارے دریا بھی ہماری طرح جذباتی بہاؤ رکھتے ہیں ۔ یہ مون سون میں بپھر جاتے ہیں اور باقی سارا سال خاموش رہتے ہیں۔ دریاؤں میں پانی کے اس قدر تبدیل ہوتی سطح کی وجہ سے چھوٹے آبی جہازوں کی دار سال بلا رکاوٹ آمدورفت کیسے ممکن ہے؟ اس کا حل دریا کے اندر نیوی گیشن چینل بناناہے جو کہ سارا سال پانی کے ایک مستقل بہاؤ پر چلتا ہے جس میں بار جز (چھوٹے جہاز) اور کشتیاں رواں دواں رہتی ہیں۔ یہ کراچی سے اٹک اور پھر دریائے کابل۔ کے ذریعے مال برداری کا قدرتی اور سستا ترین ذریعہ ہوسکتا ہے۔ نیوی گیشن یہ بھی مستقبل کا ایک کامیاب بزنس ہوسکتا ہے جس سے بہت سے لوگ منسلک ہوں گے۔

بہرحال سندھ کا راج طے ہوچکا ۔ پالیسی سازوں کو اس پر سوچنا ہوگا ۔ اگر اس کے مطابق منصوبہ بندی ہوگئی تو دریائے سندھ مستقبل کا پاور کوریڈور۔۔۔انڈسٹرئیل زون ۔۔۔اور آمدورفت کا سب سے بڑا راستہ ۔۔۔ہوگا جوکہ انڈیا کو بھی شمالی دریاؤں یا کم ازکم ایک دریا میں پانی چھوڑ کر اس کوریڈور سے منسلک ہونے پر مجبور کر سکتا ہے اور افغانستان کو بھی دریائے کابل رواں دواں رکھنے پر راضی رکھ سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button