سرکاری اداروں میں مروج چڑیائی سسٹم
بشیراحمد درس
سرکاری محکموں میں ایک کام کو پروسس کرنے کیلئے دس جگہوں پر مختلف افسران سگنیچر کرتے ہیں ، یعنی ایک عرض داشت پر دس چڑیائیں (سگنیچر) بنتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ ہوتا ہے ایک کام جو ایک گھنٹے میں ہونا ہوتا ہے ، وہ کئی دن یا ایک غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ہوجاتا ہے۔ ایک شخص جو ایک مثبت کام کیلئے نکلتا ہے وہ کئی جگہوں پر کوفت کا شکار ہوکر ملک اور قوم کو برا بھلا کہنا شروع کردیتا ہے ۔ اسے دفترمیں ایک چپڑاسی ، کلرک ، پی اے سے لیکر افسر بالا تک کے مختلف نخرے ، یا مزاج یا بہانے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
ایک عام یا کم پڑھے شخص کو تو صرف یہ کہا جاتا ہے کہ صاحب آج میٹنگ میں ہے ۔صاحب اس درخواست کو منظور ہی نہیں کریں گے ۔
یا جھوٹے داؤ پیچ بتا کرایک قانونی کام کو ردی کی ٹوکری میں ڈل جانے کے ڈر دیئے جاتے ہیں ، لیکن جب مٹھی گرم کردی جائے ، یا مٹھائی دے دی جائے تو تمام بہانے ھباء منثورا بن جاتے ہیں ، کئی دنوں کا کام یوں لمحوں میں ہونے لگتا ہے ۔
روینیو کے ایک دوست نے بتایا کہ فائل رد ہونے کا خوف دلانا یا دیر سے منظوری کا ڈر دلانا ہمارے عملے کا محبوب مشغلہ ہے ، اورہر کوئی انسان چاہتا ہے کہ اس کے کسی کام میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور وہ جلدی سے منظوری کے مراحل طے کرلے ۔ لیکن کلرک سب سے پہلے اسے افسر بالا کی طرف سے مختلف وجوہات بنا کر منظور نہ ہونے کا خوف دلاتا ہے , تاکہ اس سے کچھ نا کچھ پیسے نکلوا سکے۔
آج ہم سب جانتے ہیں کہ اکثر لوگ ڈومیسائل اور پی آرسی بنوانے کیلئے وکیل یا کسی ایجنٹ کا سہارا لیتے ہیں ، یہاں تک کہ گاڑی کا ٹیکس ادا کرنے کیلئے بھی ایجنٹوں کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ اور آج بھی ہم لوگ بینک کی قطار میں کھڑے ہوکر بجلی ، گیس وغیرہ کا بل ادا کرتے ہیں ۔
یہ سب اس لئے ہے ہم جدید سہولیات کو اختیار کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں ، کیوں کہ اگر ایک محکمے کا کام کمپیوٹرائزڈ ہوجائے تو اس سے بہت سارے گھپلے واضح بھی ہوجاتے ہیں اور بہت سارے لوگوں کی کمیشنز بھی ماری جاتی ہیں ۔ اسی لئے ہمارا کوئی بھی محکمہ اس طرف آنا ہی نہیں چاہتا ہے ۔ جو ادارے ڈجیلائیزیشن کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں وہ بھی ٹوپی ڈرامے کی حد تک ہیں جیسے ریلوے ٹکٹ ریزویشن کی آن لائن ٹکٹ سروس ، اگر کاؤنٹر سے جاکر لیں تو ٹکٹ 50 سے 70 روپے سستی پڑتی ہے ۔ اگر آن لائن بک کروائیں تو اتنی مہنگی تاکہ لوگ وہی قطار میں کھڑے رہیں ا ور کاؤنٹراسسٹنٹ کو سیٹس کیلئے منتیں کریں اور پھر 10 روپے یا 20 روپے اوپر دے کر سیٹ بک کروائیں۔
تعلیمی اداروں میں بایو میٹرک کے سسٹم کے نفاذ کا سننے میں آیا لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ بھی ایک ٹوپی ڈرامہ ہی تھا اور فاننیس والوں کی مٹھی گرم کرنے سیلری میں کوئی کٹوتی نہیں ہوگی غیر حاضر کو حاضر کرنے کا طریقہ بھی دریافت کرہی لیا گیا ۔
ہمارے ہاں آن لائن سسٹم کے دعویدار سب سے زیادہ بینکنگ سسٹم ہے جو حیران کن طریقے سے ٹوپی ڈرامہ ہے ،کبھی اپنی ہی بینک کی کسی دوسری برانچ میں جاکر اپنے اکاؤنٹ کے معاملات طے کروانے کیلئے تجربہ کیجئے گا پتا جل جائے گا ان کے ڈجیڑلائیزیشن کے ڈھول کا پول کیا ہے ۔ یا پھرحبیب بینک کے آن لائن ہیلپ لائن پر رابطہ کرکے دیکھئے گا۔
ایف بی آر والوں نے ٹیکسشن کا سسٹم بھی آن لائن کردیا ہے ، وہ اتنا تو مشکل ہے کہ ا-آئی ٹی کو جاننے والا اچھے خاصے بندے کو چکر آنے لگ جائیں ، پھر وہ ریٹرن فائل اور یا این ٹی این کو بنانے کیلئے ایجنٹ یا وکیل یا محکمے کسی ملازم کا سہارا لیتا ہے جو اس سے سروسز چارجز لیتے ہیں ، یعنی اتنا مشکل بنایا ہوا کہ ایک شخص اپنی ریٹرن فائل جمع کروانے کیلئے بھی ہزار بار سوچے گا ۔
بہرحال یہ بات یقین کی حد تک واضح ہوچکی ہے کہ ہمارے سیاستدان یہ نہیں چاہتے ہیں کہ لوگوں میں تعلیم عام ہو کیوں کہ پھر باشعور اور تعیلم یافتہ لوگ ان کو کبھی منتخب نہیں کریں گے ، ایسے ہی ہمارے محکموں میں بیٹھے ہوئے افسران بھی یہ نہین چاہتے کہ سسٹم کو کمپیوٹرائز کردیا جائے یا کسی مینجمینٹ کے سافٹویئر پر منتقل کردیا جائے ۔ کیوں کہ پھر افسران کی فرعونیت مزاجی ختم ہوجائے گی ، ان کی بدعنوانیاں اور کالے دھندے بھی ختم ہوجائیں گے ۔
یہ اکیسویں صدی اور ڈجیلٹرائیشن کے دور میں جہاں مختلف آن لائن اور آف لائن مینجنمنٹ سسٹم بن چکے ہیں وہاں پرہم کب تک چڑیا کے اوپر چڑیا بٹھاتے رہیں گے، اورکب تک بلیک میلر سیاستدان اور افسران سے لٹتے رہیں گے تو آئیں ہم سب مل کر یہ آواز بلند کریں کہ خدارا حکومتی محکموں یہ چڑیائی سسٹم ختم کردیں ، اور افسران کو یہ باور کروائیں کہ وہ پبلک سرونٹ ہیں جن کا کام عوام کو تیزتر سہولیات پہنچانا ہے ، آئیں سب مل کر افسران اور سیاستدانوں اس مینئول سسٹم کے خلاف مل کر آواز بلند کریں۔