کیا ڈیم نہیں بنے چاہئیں
انجنئیر ظفر وٹو
ڈاکٹر صاحب پانی کے موضوع پر ایک بہت عالم فاضل آدمی ہیں جنہیں میرے جیسا کم علم آدمی فیس بک پر پاکستان کے ڈیموں کے حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیو میں ٹیگ ہونےسے پہلے نہیں جانتا تھا۔ ڈاکٹر حسن عباس صاحب کا انٹرویو سن کر شدید حیرت ہوئی اور میں نے سوشل میڈیا اور لنکڈ ان پر ان کو مزید کھوجا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ڈیم بیزار ایکسپرٹ ہیں اور پاکستان کے تمام دریاؤں پر ڈیم بنانے کے خلاف ہیں بلکہ امریکہ اور یورپ طرز پر پاکستانی دریاؤں کی اپنی اصلی حالت میں بحالی چاہتے ہیں۔
ان کی اس خواہش پر ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ 2007 میں انٹرنیشنل سنٹر فار ہائیڈروپاور کی دعوت پر ناروے کے پن بجلی سیکٹر کو دورہ کرنے کا موقع ملا۔ اندرون ملک پہاڑی جنگلی علاقوں میں منصوبوں کے وزٹ کے دوران بہت سی جھونپڑیاں بنی نظر آئیں تو اپنے کوآرڈی نیٹر سے اس بارے استفسار کیا۔ معلوم ہوا کہ شہرکے شور شرابے سے تنگ ناروے کی ایک بڑی کھاتی پیتی شہری آبادی کا محبوب مشغلہ ویک اینڈز پر ان جھونپڑیوں میں قدرتی ماحول میں بغیر بجلی، موبائل یا ٹی وی سیٹ کے وقت گزارنا ہے۔ لکڑیاں جلا کر کھانا پکانا ہے۔ چشمے سے پانی پینا ہے۔ یہ ایک اعلی درجے کی تفریح گردانی جاتی ہے۔
کوآرڈی نیٹر بتانے لگا کہ کچھ عرصہ پہلے عالمی ادارہ برائے پن بجلی کی دعوت پر انڈیا کے ایک بہت بڑے پروفیسر صاحب کو لیکچرز کے کئے مدعو کیا گیا جنہیں اوسلو کے ایک سٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ ویک اینڈ پر ان کے لئے جنگل کاٹیج میں اعلی درجے کی تفریح کے لئے دودن کا انتظام کیا گیا ۔
واپسی پر پروفیسر کا بوتھا سوجا ہوا تھا۔پروفیسر صاحب سخت ناراض تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو ویک اینڈ پر اوسلو کے شاپنگ مال اور نائٹ لائف سے لطف اٹھانا چاہتے تھے لیکن انہیں ایک دیہاتی کی طرح بغیر بجلی والی جھونپڑی میں بھیج دیا گیا۔
پروفیسر صاحب کا گلہ یہ تھا کہ کاٹیج والا ماحول تو ہم سارا سال اپنے ملک میں انجوائے کرتے ہیں چھ چھ گھنٹے روزانہ بجلی نہیں ہوتی۔ نہ گیس آتی ہے نہ نلکے سے پانی اور موبائل سگنل تو ہوتے ہی نہیں۔ ناروے میں تو میں آپ کی شہری زندگی کا مزہ لینا چاہتا تھا اور آپ نے مجھے جنگل میں پھینک دیا۔ میزبان شاکڈ
میں بھی ڈاکٹر صاحب کا انٹرویو سن کر سکتے کی حالت میں ہوں۔ اے بڑے بھائی ڈاکٹر صاحب۔ ہماری زیادہ تر آبادی تو پہلے ہی قدرتی ماحول میں رہتی ہے۔ ہم نے تو بڑی مشکل سے ورلڈ بنک کے تعاون سے اب تک صرف دو بڑے ڈیم بنائے ہیں۔
جن ممالک کی آپ مثالیں دے رہے ہیں وہ تو ہزاروں کی تعداد میں بڑے ڈیم بنا کر آدھی صدی سے زیادہ ان سے فائدہ اٹھا بیٹھے۔ انٹرنیشنل کمیشن آف لارج ڈیمز ICOLD کا ڈیم رجسٹر تو انہی ملکوں کے ڈیموں کے ناموں سے بھرا پڑا ہے اور اب یہ ملک ہمیں ڈیم نہ بنانے کے بھاشن دے رہے ہیں۔
پاکستان جیسا ملک جس کاسب سے زیادہ پانی مون سون میں ہی میسر ہوتا ہے اس کے پاس سال کے باقی مہینوں کے لئے ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ اور کیا حل ہوسکتا ہے۔ آپ ہم بھوکے لوگوں کو ملکہ فرانس کی طرح ڈبل روٹی کھانے کا مشورہ تو نہ دیں۔
پاکستانی معیشت کی بنیاد ہی زراعت پر ہے اور فصلوں کو تو پانی ہی تبھی چاہئے ہوتا ہے جب بارش نہیں ہوتی۔چند ماہ پہلے اپریل میں چھ دہائیوں کی شدید ترین خشک سالی کی وجہ سے ڈیم خشک ہوچکے تھے اور سندھ اور پنجاب میں مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ ہماری اس سال کی کاٹن کی فصل پانی نہ ملنے سے تباہ ہوچکی اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالروں کا نقصان ہوچکا۔
لہذا ڈیم مخالف حضرات کی باتوں سے ہرگز گمراہ نہ ہوں۔ ہمیں مون سون کی چند ماہ کی بارشوں کو سارے سال کے لئے ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ ہماری نیلی دولت ہے جسے واٹر بنک میں رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بوقت ضرورت سارا سال تھوڑا تھوڑا کرکے استعمال کرسکیں۔ٹیکنیکل اعتراضات کا جواب کچھ دنوں میں ایک تفصیلی آرٹیکل میں دوں گا۔انشااللہ۔
چلتے چلتے بتادوں کہ محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال صرف جولائی کے ایک مہینے میں ہی پچھلے سال2021 کے مون سون کے تین ماہ (جولائی تا ستمبر ) کی کل ملا کر بارشوں سے زیادہ بارش ہوچکی ہے۔
محکمہ کی اگست کی موسمیاتی آوٹ لک کے مطابق اگست کے مہینے میں پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان کے ساحل مکران میں مزیذ تیز بارشیں ہوں گی جب کہ شمالی علاقوں میں گرمی کی وجہ سے برف کے پگھلنے سے مڈ فلُو کا خطرہ ہے۔
ادھر انڈیا نے طوفانی بارشوں کے بعد دریائے چناب اور راوی میں پانی چھوڑ دیا ہے۔ دریائے چناب میں طغیانی سے ضلع جھنگ کے کافی علاقے زیر آب آچُکے۔