مولوی کا بیٹا
"مولوی صاحب کا بیٹا”۔ ۔ ۔ ۔تحریر: جواد عبدالمتین اسلامک اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس
مولوی صاحب کا بیٹا ہمارے معاشرے کا ایک نہایت اہم کردار ہے۔یہ کسی ایک مولوی صاحب کا نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے میں رہنے والے بہت سے باعمل دیندار لوگوں کا بیٹا ہے۔جوکہ آج کے دور میں ایک منفرد اور مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔پہلے دور میں ایسا بیٹا کسی کسی مولوی صاحب کے گھر میں ہوتا تھا مگر اب یہ ہر دوسرے گھر میں پایا جاتا ہے ۔—اس کے والد یعنی مولوی صاحب نے جب دینی تعلیم حاصل کی تھی تو اُس وقت اسلاف کی کچھ نشانیاں باقی تھیں۔جن سے انھوں نے زہد وقناعت سیکھا، تقویٰ اخلاص کا سبق حاصل کیا، بردباری، صبر اور توکل کی تعلیم لی۔جس کا اثر مولوی صاحب کے بیانات اور ان کی عملی زندگی میں واضح نظر آتا ہے۔اُن کے الفاظ کی گہرائی اور جملوں کی پختگی سے اس بات کا صاف اندازہ ہوتا ہے کہ بات دل سے کہی جارہی ہے اور دل پر اثر بھی کر رہی ہے۔—مگر اس دور میں جب مولوی صاحب کے بیٹے نے ہوش سنبھالا تو ہمارے ملک میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ آچکا تھا، ہر شخص کے پاس اسمارٹ فون موجود تھا، ہر طرف نئی روشنیاں اور دنیا کی چمک دمک دکھائی دے رہی تھی، خانقاہوں اور مدرسوں میں بھی قیمتی گاڑیاں اور جدید وڈیو کیمرے نظر آ رہے تھے ۔—اب بچہ تو آخر بچہ ہی ہوتا ہے۔ جو دیکھتا ہے اس سے اثر لیتا ہے ۔— مولوی صاحب کے دل کی خواہش تو یہی تھی کہ اُن کا بیٹا بھی علم کے اُس نور کو اپنے سینے میں سنبھالے جو ان تک پہنچا تھا۔ —مگر مولوی صاحب کا بیٹا کیا کرے کہ اس کا تو دل اس طرف لگتا ہی نہیں۔اس کے دل پر تو وہ جدت کے رنگ اور روشنیاں سوار ہیں جو اس کو ہر طرف نظر آ رہی ہیں۔—اب اس چمک دمک کی کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے یہ تو اُس معصوم کو معلوم نہیں، کہ بعض صورتوں میں تو ایمان اور اعمال کی قربانی تک کی نوبت بھی آجاتی ہے۔—وہ بیچارہ تو بس یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ سب کچھ بھی جائز اور حلال ہے اور اس کو حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔—جبکہ اُسے اپنے والد یعنی مولوی صاحب کا دین بہت سخت معلوم ہوتا ہے۔جس میں اللہ رب العزت کی ذات پر توکل اور قناعت اور صبر ہے،جو مل گیا اس پر شکر کر لیا ، کسی سے کبھی کوئی سوال نہ کیا، اپنی سوچ اور صلاحیتوں کو دین کی خدمت پر جمائے رکھا۔—اب وہ بے چارہ مرتا کیا نہ کرتا دین کی تعلیم بھی لینی پڑی اور کسی درجے میں حافظ اور عالم بھی بن گیا۔لیکن دنیا کی چمک دمک کے تاثر کی وجہ سے اپنے دل کو وحی کے علوم سے منور نہ کر سکا۔—اب اگر کوئی صاحبِ نظر اس کو دیکھتا ہے تو اُسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی پنجرے میں پھڑپھڑاتا پرندہ ہے ۔ جب دنیا دار لوگ اس کو دیکھتے ہیں تو اس پر رحم کھاتے ہیں کہ یہ تو بچارا جو کرنا چاہتا ہے وہ کر نہیں پاتا۔لیکن جب عام دیندار لوگ اس کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی اس پر ترس کھاتے ہیں کہ اس بچارے کی کیا حالت ہوگی کیا نسبت تھی اور کہاں آ پہنچا ۔—اب اس کی مثال گویا وہی ہے کہ "نہ گھر کا نہ گھاٹ کا”۔—لیکن مولوی صاحب کا ہر بیٹا ایسا نہیں ہوتا بعض کو اپنے بڑوں کے نام اور مرتبے کا بھرپور اکرام کرنے کا موقع ملتا ہے۔وہ ان قربانیوں اور مشقتوں کا احساس کرتا ہے جو اس کے بڑوں نے دین کے نور کو یہاں تک پہنچانے کے لیے برداشت کی ہیں۔ اس کا دل دنیا سے بے رغبت ہو تا ہے اور وہ صرف اس کو ضرورت کے درجے میں کمانے کا قائل ہےاور وہ قناعت اور تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارنے کو ہی نجات کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے۔اس کو نہ تو دنیا کی یہ روشنیاں متاثر کرتی ہیں، اور نہ ہی اپنے بزرگوں کی نسبت کی وجہ سے شہزادوں جیسی زندگی گزارنے والے ( مذہبی حلقے کے) اپنی عمر کے دوسرے نوجوان ۔ ایسے بیٹوں کو دیکھ کر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو حقیقت میں اس بات کا احساس اور قدر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور اُن کے اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اس دین کو یہاں تک پہنچانے کے لیے کیسی بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ بس شاید یہی وہ بیٹے ہیں جو علم و حکمت کے نور کو اگلی نسل تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں گے باقی تو جو کچھ ہے وہ سب کو معلوم ہی ہے۔ مگر اب یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اب مولوی صاحب کے ایسے بیٹے ڈھونڈنے سے بھی مشکل سے ہی ملتے ہیں۔=================وَمَا عَلَیْنَآ اِلاَّ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ=================