آج کے کالمزدینیاتمتفرقات

اعتکاف سرگزشت (کیا دیکھا کیا محسوس کیا)

 2023ءبمطابق 1444 ھ

ڈاکٹر عبدالحمیدآرائیں

          ماہ رمضان اپنی تمام تر برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ ساتھ اعتکاف کا پیکج بھی رکھتا ہے۔اسلامی تعلیمات میں اعتکاف کی بہت اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔

          میں پچھلے کئی سالوں سے ارادہ کر رہا تھا کہ مسجد میں اعتکاف    کیاجا ئے مگر کسی نہ کسی وجہ سے ارادہ حقیقت کا روپ نہ بن سکا۔ مگر اس سال یعنی 2023 ء بمطابق   1444 ھ  ہمت کر کے پختہ ارادہ کیا اور تیاریاں شروع کیں۔ شیطان نے کئی دفعہ پُھسلانے کی کوشش کی مگر اس دفعہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد و نصرت  شامل ِ حال رہی اور پھر آخر کار وہ دن آ ہی گیا ۔

          20 رمضان المبارک 1444 ہجری کی شام تیاریاں مکمل کی اور مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ مسجد میں دوست اور انتظامیہ  میرے لیے خیمہ تیار کر چکے تھے۔اپنے چیمبر میں داخل ہوا اپنا بستر و سامان ترتیب دیااور پھر واپس مسجد کے ہال میں آ گیا کیونکہ سنتِ نبویﷺ کے مطابق اکیس کی رات مسجد  کے ہال میں ہی گزارنی ہوتی ہے پھر  نماز فجرادا کر کے اپنے حجرے میں داخل ہو نا چاہیے۔

اعتکاف کے لیے مسجد کا انتخاب بھی میرے لیے ایک مسئلہ ہی تھا۔ کبھی تو دل کہہ رہا تھا کہ اپنے آبائی گاؤں میں محلہ کی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں میں نے بچپن میں بھی اعتکاف   کیا تھا۔مگر اب وہاں جا کر اعتکاف کرنا مشکل لگ رہا تھا۔اس لیئے حیدرآباد میں گھر کے اردگرد مساجد پر ہی غور کرنا شروع کیا  کیونکہ میری کوشش تھی کہ ایسی مسجد جو گھر کے بھی قریب ہو اور وہاں نوجوان بھی معتفک ہوں  تا کہ کچھ درس و تدرس  کا سلسلہ بھی جاری رہے۔

          بہر حال جامع مسجد ابو بکر صدیق گھمن آباد میں وقوف کرنا ٹھہرا۔ نماز مغرب پڑھ کر میں مسجد پہنچ گیا۔ مسجد میں یہ پہلی رات تھی  ۔ کچھ دیر تلاوت کی  اور نوافل ادا کرنے کے بعد مسجد کے ہال میں ایک طرف بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ دوسرے معتکف کون لوگ ہیں؟

          معلوم ہوا کہ اس سال مجھ سمیت پانچ لوگ  مسجد ھذا میں   معتکف ہیں۔ ہال کے جنوبی سمت پانچ خیمے نصب کیے گیے تھے جن میں سے قبلہ کی سمت سے پہلا میرا خیمہ ہے میرے ساتھ والے خیمہ میں اساؔمہ ہیں جو کہ گھمن آباد کے ہی رہائشی ہیں۔ انٹر پاس ہیں اور کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ  فرقاؔن صاحب ہیں جوکہ ابھی میٹرک کے شاگرد ہیں اور ان کے ساتھ یعنی آخری خیمہ میں ارؔقم  ہیں وہ آٹھویں درجہ کے طالب علم ہیں۔ کافی صحت مند  اور ہنس مکھ ہیں ۔ماشاءاللہ۔

          دوسری جانب یعنی شمالی سمت میں ایک ہی خیمہ ہے جو کہ عبدؔالجبار صاحب کے لیے تیار کیا گیا ہے۔عبدالجبار پیشے کے اعتبار سے  ڈرائیور ہیں۔ طبیعتاً سخت مزاج ہیں۔ میں نے سب کو اپنے  پاس بلایا  اور گپ شپ کے انداز میں تعارف اور پھر اعتکاف کے بارے میں بات چیت شروع ہو گئی۔

          عام طور پر اعتکاف کا مقصد صرف عبادت ہی سمجھ جاتا ہے جب کہ میں نے معتکفین کو بتایا کہ ہمیں اس دوران کوئی ہدف مقرر کرنا چاہیے جیسے کہ قرآن فہمی یعنی کم از کم قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں ، نماز کی دعائیں وغیرہ سیکھیں، حدیث کی کوئی کتاب پڑھیں یعنی احادیث  سمجھیں یا  کچھ یاد کریں۔ اعتکاف میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت پر غور و فکر کرنا چاہیے۔اپنے گناہوں سے معافی اور مستقبل میں صراطِ مستقیم کی دعا کرنی چاہیے۔

          بہر حال  کوئی دو گھنٹے یہ محفل جاری رہی اس میں  رمضان کے مقاصد اور اہداف پر بھی بات ہوئی کہ روزہ  کے ذریعے ہم  خواہشات پر کنٹرول   حاصل کر سکتے ہیں۔ ابھی محفل جاری تھی کہ مسجد کے پڑوسی بابا صدؔیق بھی تشریف لے آئے۔ عبدالجبار بھائی نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ان کی قسمت دیکھیں کہ ان کے پانچ چھوٹے بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے ۔ان کی بیویاں زندہ ہیں  مگر بابا صدیق کی بیوی انتقال کر چکی ہیں۔اور یہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ان سب کا اور اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔ خود ان کا چاٹ چنا کا ٹھیہ ہے۔اس محدود آمدنی میں بھی وہ سب کا خیال رکھتے ہیں۔

          جس پر میں نے کہا عورتوں کی نسبت مردوں کی  اموات زیادہ اور جلدی ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو بیواہ عورتیں نظر آئیں گی مگر رنڈوے شوہر  نہیں ملیں گے۔فوراً ہی اسامہ نے سوال کیا : اس کی کیا وجہ ہے ، وہ حیرت میں تھا کہ اس کی کیا وجہ  ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے خاندان و محلہ میں بیوہ عورتوں  کو گنتی بھی کر رہا تھا۔

          میں جواب دیا کہ دیکھیں مرد سارا دن باہر نوکری، کاروبار، تجارت یا خریداری کرنے جاتا ہے جس کی وجہ سے   روڈ ایکسیڈنٹ  کا  شکار بھی اکثر وہ ہی بنتا ہے۔گھر بچوں اوردیگر اخراجات  و معاشرتی معاملات کی ذمہ داری بھی مرد ہی کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے  وہ اکثر ٹینشن  کا شکار رہتا ہے  جو بلڈ پریشر ، شوگر اور امراض ِ قلب جیسی مہلک بیماریوں کا سبب بنتاہے۔ پھر یہی بیماریاں اس کی اچانک اور جلد موت کی وجہ بھی بنتی ہیں۔شراب نوشی، سیگریٹ نوشی بھی مردوں کی جلد اموات کاایک سبب ہے۔ مردوں کی زیادہ اموات  کی ایک اور وجہ جنگوں میں ہلاکت ہےجس میں بھی  زیادہ تو ر پر مرد ہی حصہ لیتے ہیں۔

          یہی وجہ ہے کہ مرد کو دوسری ،تیسری اور چوتھی شادی کی اجازت دی گئی ہے تا کہ وہ معاشرے میں بیوہ اور یتیم عورتوں کا سہارا بن سکے۔

          اوہ اتنے میں  ایک دم لائٹ گئی اور پھر آ  تو گئی مگر محفل ختم ہو گئی۔ سب پھر اپنی اپنی عبادات میں مصروف و مشغول ہو گئے۔اتنے میں رات گزر گئی اور گھروں سے سحری آنا شروع ہو گئی۔

          یاد آیا کہ یہ مسجد میرے گھر سے کافی فاصلہ پر واقع ہے لہذا گھر سے کھانا آنا کافی دشوار تھا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ مسبّبُ الاسباب ہے ۔ میرے پروردگار نے ایک بہترین سبب بنا دیا۔ ہوا یوں کہ ابھی میں مختلف مساجد کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ مسجد ھذا کے پڑوسی  ممتاز بھائی نے فوراً  سحری او افطاری کی ذمہ داری اُٹھا لی۔ میں نے بہت منع کیا لیکن وہ نہ مانے اور میزبانی کے فرائض کیا خوب نبھائے۔اللہ غفور رحیم انھیں اور ان کے اہل و عیال کو جزاء خیر عطا فرمائے۔ ان کے علم و عمل میں برکت دے۔ ۔۔آمین۔ ہم سب نے مل کر سحری کی۔ فجر کی نماز کے بعد امام صاحب نے مختصر درس  میں اعتکاف کے فوائد و اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اور پھر ہم اپنے اپنے چیمبر (حجرے) میں داخل ہو گئے۔

          حجرے کی دیواریں چادروں سے بنائی گئی تھیں یہ سب بھی ممتاز بھائی ہی کی کوششیں تھیں۔بستر میں اپنے گھر سے لے آیا تھا۔بستر لگایا اور رات بھر جاگنے کے بعد بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی۔

دن بارہ بجے  آنکھ کھلی جلدی جلدی بستر چھوڑا اور نہانے کے لیے غسل خانے کا رخ کیا۔ ہاں تولیہ اور صابن تو حسب ِ معمول اپنا ہی لایا تھا۔ اکثر دورانِ سفر کچھ چیزیں میرے بیگ میں موجود ہوتی ہیں جیسا کہ صابن، سرسوں کا تیل، کنگا، کولڈ کریم، تولیہ، ضروری دوائیں۔ پہلے آئینہ بھی ہوتا تھا مگر اب موبائل کے سیلفی کیمرہ نے  دوسری چیزوں کی طرح دستی آئینہ کو بھی ہماری زندگی سے باہر کر دیاہے۔بہر حال  ابھی نماز میں کچھ وقت تھا تو تلاوت ِ قرآن پاک سے دل کو تر وتازہ کیا۔

یہ ذکر کرنا تو میں بھول ہی گیا کہ ماشاءاللہ سے ہر اہلحدیث مسجد میں ایک لائبریری ضرور موجود ہوتی ہے  چاہیے اس میں چند کتابیں ہی کیوں نہ ہوں۔ظہر کی نماز کے بعد میں نے لائبریری کی کتابوں کی دیکھنا شروع کیا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں اچھی خاصی اور تقریباً تمام ضروری بنیادی کتابیں موجود تھیں۔دیکھتے دیکھتے ایک کتاب پر میری نظر یں ٹک گئیں۔ پروفیسر داکٹر یٰسین مظہر صدیقی کی: "عہد نبویﷺ میں تمدن  جیسے دارالنوادر، لاہور نے چھاپا ہے۔ بہت خوبصورت ، معلوماتی اور مدلل کتاب ہے۔سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے انتہائی اہم کتاب ہے۔

ابھی چند دن پہلے دوستوں کے ساتھ دورنبوی  ﷺ کے تمدن اور معاشری حالات پر دوران گفتگو  ایسی کتب کی ضرورت محسوس ہوئی تھی جس میں تمدن کے بنیادی اجزاء یعنی  دورِ نبوی کے کھانے، دعوتیں، زیورات، تعمیرات وغیرہ کی معلومات ایک جگہ اکٹھی کی جائیں۔ یہ ہماری آرزو تھی مگر کیا معلوم تھا اللہ تبارک و تعالیٰ نے اتنی جلدی ہماری دعا قبول فرمائی اور متعلقہ تمام معلومات  ایک ہی جگہ یعنی ایک کتاب کی صورت میں بہت آسانی سے مہیا ہو گئی۔یہ کتاب بھی میں نے وہاں سے اُٹھالی اور اپنے چیمبر میں رکھ لی۔  ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتنی کرم نوازی ہے کہ کیسے جلدی جلدی  دعائیں قبول فرماتا ہے اور مزے کی بات یہ کہ وہ  یہ نہیں دیکھتا کہ مانگنے والا کتنا گنہگار ہے بس عطا کرتا چلا جاتا ہے۔سبحان اللہ  و بحمدہ و سبحان اللہ العظیم۔

عصر تک نبوی تمدن ﷺ کا کچھ حصہ زیر مطالعہ رہا۔ اس کتاب   کے باب اول میں دور نبویﷺ میں طعام  ومشروبات کی اقسام  (روٹی، سالن اور حلویٰ وغیرہ) پر مشتمل ہے۔عہد رسالت ﷺ میں دن میں صرف دو دفعہ کھانا کھایا جاتا تھا ایک صبح سورج چڑھنے کے بعد یعنی تقریباً  آٹھ بجے سے لے کر دن دس بجے کے درمیان میں جیسے:   ” غَدا” کہا جاتا ہے۔ اور دوسرا کھانا شام یعنی مغرب  کے بعد سے عِشاء کے وقت کے درمیان تک جیسے ہم  Dinner  یعنی رات کا کھانا کہتے ہیں اُسے عہد نبویﷺ میں ” عَشاء ” کہا جاتا تھا۔عربی کی ایک مشہور اور دلچسپ کہاوت بھی ہے کہ ” العَشاء قبل العِشاء” یعنی عَشاء (رات کا کھانا) نمازِ عشاء سے پہلے۔

کتاب کے اس باب میں عرب کے عہد نبویﷺ میں کھانوں کی اقسام کے ساتھ ساتھ ان  کی تراکیب یعنی Recipes  بھی بتائی گئی ہیں۔ نبی ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی طرف سے دعوتیں وغیرہ سب کی تفصیلات موجود ہے۔

بہر حال نماز ِ عصر سے فارغ ہو کر کچھ دیر تلاوت کی۔ اب سر میں بھاری پن بلکہ  ہلکہ ہلکہ درد محسوس ہو رہا تھا  اس لیے سوچا  کہ کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔افطار  سے کچھ دیر قبل میرے بچے کچھ افطاری کا سامان لے کر  آئے۔ میرا چھوٹا بیٹا طیب علی بھی  ساتھ آیا تھا وہ یہ سب یعنی حجرہ دیکھ کر حیران  ہو ا اور پوچھنے لگا کہ بابا آپ  یہ چادریں لگا کر کیوں رہ رہے ہیں۔پھر میں نے اسے اعتکاف کا معنی و مفہوم سمجھایا۔افطاری تمام لوگوں نے مل کر کی۔ افطاری میں اتنا سامان تھا کہ سب دیکھ کر بے اختیار  کہا: الحمد اللہ

نماز ِ عشاء و قیام اللیل (تراویح) کے  بعدکھانا آگیا یہ کھانا جماعت کے کسی بھائی کی طرف تمام لوگوں کی  دعوت کی گئی تھی وہ لے کر آئے تھے۔کھانے میں دیگ کا قورمہ اور نان تھے۔ کھانا تو لذیذ تھا مگر مشکل یہ تھی کہ افطاری میں بھی بہت کچھ کھا چکے تھے اب ضرورت نہیں تھی اور دوسری پریشانی یہ تھی کہ سحری میں بھی ابھی کچھ وقت ہی باقی تھا مگر یہ کھانا بھی ضروری تھا کیونکہ جنھوں نے دعوت کا اہتمام کیا تھا وہ ساتھی بھی ساتھ ہی موجود تھے لہذا یہ تو طے تھا کہ کھانا تو کھانا ہی پڑے گا۔پھر کیا تھا کھاتے رہے اور بھائی کےلیے دعائیں بھی کرتے رہے ۔ اللہ انھیں دنیا و آخرت میں آسانیاں عطافرمائے۔ان کے مال و اولاد میں رحمت و برکت دے۔۔۔آمین

پھر کچھ دیر کے بعد سحری کا کھانا بھی آگیا۔ پھر کیا تھا کہ سارا دن جس حدت و شدت سے  دن گزرا یہ ہم ہی جانتے ہیں یا پھر ہمارا اللہ۔ خیر رات کچھ دیر عبادت کی اور دو گھنٹے آرام بھی کیا ۔ یہ بائیسویں رات تھی اور آگے پھر تیئسویں رات ہے جو کہ طاق راتوں میں سے ہے جس میں پھر جاگنا تھا۔ اس لیے کچھ دیر آرام کر کے سحری کھائی تھی۔ فجر کی نماز کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ تلاوت کی اور پھر بستر پر دراز ہو گئے۔

وقفہ وقفہ سے آنکھ کھلتی رہی لیکن ہم ڈھیٹ ہو کر پڑے رہے ۔ کوئی بارہ بجے کے قریب غسلِ ٹھنڈک و تازگی کر کے عبادت  و تلاوت میں مشغول رہے۔ یہ ہمارا مسجد میں دوسرا دن تھا۔ باقی سب تو ٹھیک چل رہا تھا مگر رات والے قورمہ نان نے بڑی مشکل میں ڈالا ہوا تھا جس کی وجہ سے بار بار وضو بنانا پڑ رہا تھا۔

نبوی تمدن میں بھی دعوتوں کا باب  پڑھا جا رہا ہے۔ نبیﷺ کی دعوت کے سلسلہ میں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ پڑھا۔ ہوا یوں کہ مدینہ میں نبی ﷺ کا ایک  فارس سے تعلق رکھنے والا پڑوسی شوربا بہت اچھا بناتا تھا،  اس نے رسول اللہ ﷺ کے لیے شوربا تیار کیا، پھر آکر آپ کو دعوت دی۔ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:” ان کو بھی دعوت ہے؟” اس نے کہا  نہیں:  آپ نے فرمایا ” نہیں (مجھے بھی تمہاری دعوت قبول نہیں) ” وہ دوبارہ آپ کو بلانے آیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” ان کو بھی؟” اس نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا ” تو نہیں (مجھے بھی  دعوت قبول نہیں) "وہ پھر دعوت دینے کے لئے آیا، نبی ﷺ نے فرمایا: "ان کو بھی؟” تو تیسری بار اس نے کہا: ہاں ۔ پھر آپ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ اس کے گھر آ گئے۔(صحیح مسلم، کتاب مشروبات کا بیان)

آج پھر نماز عصر کے بعد سر میں درد کی شکایت ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ افطار کے سامان کے ساتھ پونسٹان کی گولیاں بھی دے کر جائے۔ روزہ افطار کرتے ہی بلڈ پریشر اور پونسٹان کی گولیاں کھائیں اور کچھ دیر آرام کیا جس سے درد میں افاقہ ہوا۔

میں حجرے میں تھا لیکن باہر یعنی مسجد کے ہال  سے عبدالجبار بھائی کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں  غور کیا تو معلوم ہوا کہ کوئی شخص انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ معتکف کو  زیادہ تر وقت اپنے حجرے کے اندر ہی گزارنا چاہیے یہاں تک کہ سحر و افطار بھی اپنے چیمبر میں ہی کرنی چاہیے لیکن عبدالجبار بھائی ان سے بحث کر رہے تھے کہ مجبور ی میں اور تھکاوٹ میں کچھ دیر کے لیے باہر یعنی مسجد کے ہال تک نکلا جا سکتا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے  اعتکاف کا مطلب ہے وقوف کرنا یعنی ٹھہرنا۔ اصطلاحی مفہوم  یہ ہو گا کہ مسجد میں قائم حجرے میں  قیام کرنا۔ تمام دنیاوی روابط ختم کر کے مکمل تنہائی میں اللہ سے راز و نیاز کرے۔ جس طرح انسان قبر میں اکیلا ہو گا اسی طرح یہ حجرہ بھی  قبر کا منظر پیش کرتا ہے۔یہاں انسان  اس کے گناہ اور اس کا رب ِ غفور رحیم ہوتا ہے۔ اعتکاف کرنے والے کو اپنے گناہوں کا احساس ہوتا ہے جس پر وہ اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرتا ہے۔اپنی عبادتوں ، دعاؤں سے اپنے خالق و مالک کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اعتکاف نام ہے اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کا ۔ دلجمعی پیدا کرنے کا، خشوع و خضوع پیدا کرنے کا۔ایک نقطہ  پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا۔ جس لوگوں کو زندگی میں کچھ کرنے کی لگن ہوتی ہے انھیں چاہیے کہ وہ اعتکاف میں لازمی بیٹھیں ۔یہ انھیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں مددگار ہوگا۔

  23ویں شب   بیداری اور عبادت کی تھی ۔ دیر تک عبادات میں مشغول رہے۔ وقت اپنی رفتار سے چل رہا تھا بلکہ یوں محسوس ہوا کہ دوڑ رہا ہے۔ گھڑی کی طرف نظر دوڑائی تو صبح کے چار بج رہےتھے۔ سحری کاوقت ہو چکا تھا۔ سب کے گھروں سے کھانا آنا شروع ہو چکا تھا۔صبح صبح  گرم گرم پراٹھے ، لسی، دہی ساتھ پھینیاں  اور پھر فوراً ہی چائے کا دور یہ سب اللہ کی بڑی نعمت نہیں تو اور کیا ہے۔                                                                

ذَٰلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ

فجر کی نماز کے بعد کچھ دیر تلاوت کر کے سو گئے۔ مگر آج جمعۃ المبارک کا دن ہے اس لیے جلدی اُٹھنا ہو گا ۔ ارادہ کیا کہ دس بجے تک اٹھ کر نہا لیا جائے اور پھر خیمہ کو بھی تہہ لگانا  ہو گا۔

دس بجے آنکھ  کھل گئی   اور جلدی جلدی باتھ روم کی طرف گیا لیکن وہاں پہلے  ہی اندر کو ئی موجود تھا۔کافی دیر باہر انتظار کرنے کے بعد  دروازہ بجایا تو اندر سے کڑک آواز میں جواب آیا کہ انتطار کرو ابھی نکلتا ہوں۔میں تولیہ، صابن ، ٹوتھ برش اور کپڑے لیے باہر ٹہلنے لگا۔ کچھ دیر میں  دروازہ کھلا اور ایک بابا جی باہر نکلےاور وہ اپنے ساتھ بالٹی اور ڈونگا بھی لے گئے۔ میں نے ان کو روکنا چاہا تو انھوں نے غصہ میں کہا کہ دوسری لے لو۔ شاید یہ ان کی ذاتی استعمال کے لیے تھی۔ثناء اللہ  مدرسہ کے خدمت گزار، بہت اچھے انسان ہیں۔ شروع ہی سے میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔میں نے ان سے کہا تو انھوں نے  دوسری بالٹی اور ڈونگا          لا کر دیا۔

مسجد کی صفائی کرنے والا خدمت گار شاید کہیں چلا گیا تھا اور وقت بھی کم تھا۔ اس لیے ہم معتکف حضرات نے خیموں کو لپیٹا اور فرش پر فنائل چھڑک کر پوچا لگانے لگے  تو احساس ہوا کہ یہ پوچا لگانا بھی ایک ٹیکنیکل کام ہے جو ہر بندے کے بس کا نہیں۔ خیر جیسے تیسے اس کام کو مکمل کیا  ۔ بعد میں معلوم ہو ا کہ مسجد کا خدمت گزار یہیں مدرسہ کا طالب علم ہے، اسے کسی دوسری مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینا تھا اس لیے وہ جلد چلا گیا تھا۔

مدرسہ تعلیم القرآن گھمن آباد میں جہاں تعلیم  کا معیار اچھا ہے وہیں ایک یہ خصوصیت  بھی ہے کہ یہاں زیرِ تعلیم بڑی جماعت کے طالب علم کو کسی مسجد یا لائبریری میں کسی خدمت پر مقرر کرکے  اسےمعقول معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ جیسے عام زبان میں ہاؤس جاب کہتے ہیں۔ یعنی اس کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ اس کی عملی تربیت بھی  جاری رہتی ہے اور معاوضہ سے کسی حد تک وہ اپنے اور گھر والوں کے اخراجات بھی  برادشت کرتا ہے۔یہ بہت ہی زبردست  انتظام ہے  ۔ دنیا بھر میں اکثر تعلیمی اداروں میں اس طرح کا نظام رائج ہوتا ہے سوائے وطنِ عزیز کے ۔ کاش ہمارے دنیاوی ادارے بھی طلباء کی بہتری کے لیے اس قسم کا کوئی نظام ترتیب دے سکیں۔

آج جمعۃ المبارک ہے اور  12:45 پر خطبہ جمعہ شروع ہوا۔ آج خطبہ کا موضوع تھا تقسیم ِ وراثت کی اہمیت۔جیسے ہم عام طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ خطیب صاحب  نےبہت خوب صورت انداز میں  تقسیم وراثت   پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی دوسروں کا حق ہڑپ کر جائے جیسے کہ ہمارے ہاں اکثر ہوتا ہے کہ بیٹے بیٹیوں اور بہنوں کے حق پر بھی خود قابض ہو جاتے ہیں تو ایسے لوگ پانچ کبیرہ اور سنگین گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں :

1۔قطع تعلق کا جبکہ نبیﷺ کا ارشادمبارک ہے "قطع تعلق کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا”۔

2۔خائن یعنی امانت میں خیانت کرنے والا ۔ اور خیانت کرنے والا کے لیے سخت وعیدسنائی گئی ہے۔

3۔ظلم کرنے والا اور ظالم کا انجام انتہائی بھیانک ہو گا۔

 4۔یتیم کا مال کھانے والا

5۔ حد پار کرنے والا کیوں کہ اللہ نے وراثت  کی تقسیم کو بیان کرکے کہا کہ یہ اللہ کی حدود ہیں  ، اور اللہ کی حدود کو پار کرنے والا باغی تصور ہوگا اور باغی کی سزا ہر شخص جانتا ہے۔

          یعنی دوسرے وارث کا مال کھاجانا، ہڑپ کرنا بہت سنگین جرم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس گناہ عظیم سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا شمار ظالموں میں  نہ ہو۔۔۔۔آمین

آج مغرب کے بعد ایک انتہائی اہم مگر دلچسپ واقع پیش آیا ہم سب افطار کا سامان سامنے رکھ کر دعاؤں میں مشغول اذان کا انتظار کررہے تھے  اتنے میں اذان ہوئی اور ہم  نے افطار کی۔ نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ آج آذان دینے والے نے مسجد کے باہر والے اسپیکر کھولے بغیر ہی آذان دے دی تھی پھر کیا تھا  کہ نماز کے بعد تو مسجد میں ایک شور برپا ہو گیا کہ ایسا کیوں ہوا ، کس نے کیا۔

تفتیش پر سامنے آیا کہ محلہ کا ایک بچہ جیسے آذان دینے کا بہت شوق تھا اس نے گھڑی میں وقت دیکھا اور آذان دے دی مگر اسپیکر کھولنا ہی بھول  گیا۔اور مزے کی بات یہ تھی کہ وہ آذان دے کر فوراً مسجد سے بھی رفوچکر ہو گیا تھا۔ اور اب مسجد کمیٹی کے ممبران اور دوسرے لوگ ایک دوسرے کو مورودِ الزام ٹھہرارہے تھے لیکن اصل مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہاتھا کہ ایسا ہوا کیوں؟

میرے خیال میں یہ سب نیتجہ تھا اس بات کا کہ ہم لوگ منظم زندگی نہیں گزارتے کبھی آئین یا سسٹم (System)  کی پرواہ نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے اکثر گڑبڑ ہو جاتی ہے بلکہ بڑے بڑے نقصانات سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ منظم نظام ترتیب دیا جائے اور اپنی تمام  حرکات و سکنات  یا زندگی اس نظام کے تحت گزاری جائے یہی رسول اللہﷺ کی تعلیمات ہیں۔ نبی ﷺ نے عرب کے لوگوں کو ایک نظام کے تحت ہی تو جمع کیا تھا یہی تو ان کی کامیابی کا راز تھا۔اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح انداز میں اسی کا حکم دیا ہے:

"اے ایمان والو! پورے کے پورےاسلام میں داخل ہو جاؤ (  اسلام یعنی مکمل نظام   کے تحت زندگی گزارو)” البقرہ : 208

ابھی نمازِعشاء و تراویح ختم ہی ہوئی تھی کہ ایک دوسری پریشان نے آگھیرا۔ اچانک   مسجد کی لائٹ بند ہو گئی۔معلوم ہوا کہ واپڈا والوں نے  صبح ہی سے پورے علاقے کی لائٹ کاٹ دی ہے۔”انا للہ و انا الیہ راجعون”۔ مسجد میں بڑا سولر سسٹم لگا ہوا ہے مگر وہی پریشانی کہ صبح سے لائٹ کے استعمال میں احتیاط  کرنی چاہیے تھی مگر حسب عادت  ہم لوگوں نے وہ نہیں کی۔لائٹ صبح  آٹھ بجے سے نہیں تھی اور اب رات کے گیارہ بج رہے تھے۔

مدرسہ کے بچے صحن میں شور مچا رہے تھے۔ مسجد و مدرسہ مکمل اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔صحن میں پڑے دو جنریٹر  بھی نظر آ رہے تھے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ بڑا جنریٹر لوڈ نہیں اُٹھا رہا اور چھوٹا سٹارٹ نہیں ہو رہا۔یعنی دونوں کام نہیں کر رہے۔ہمارے دو معتکف ساتھ اُسامہ اور عبدالجبار بھائی کچھ ٹیکنیکل ذہن رکھنے والے  ہیں وہ دیگر ملازمین کے ساتھ مل کر چھوٹے جنریٹر کو اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ وہ اسٹارٹ تو ہو جائے مگر فوراً بند ہو جائے ۔ اسی کوشش میں  کوئی دو گھنٹہ گزر گئے۔جنریٹر چلنے پر بچے شور مچانے لگیں اور جب بند ہو تو وہ بھی خاموش ہو جائیں۔

مجھے یاد آیا کہ ہمارے ایک دوست کنیڈا  میں مقیم تھے جب وہ پاکستان آئے تو انھوں نے وہاں کے حالات واقعات سے آگاہ کیا۔ تو میں نے ان سے پوچھاکہ کیا وہاں بھی ہماری طرح  لائٹ جاتی ہے یعنی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ وہاں تو سوال ہی پیدا نہیں   ہوتا کہ لائٹ بند ہو جائے۔میں نے کہا کہ افسوس وہ لوگ ایک بڑی خوشی سے محروم رہتے ہیں۔دوست نے حیرت سے پوچھا وہ کیا؟  میں نے تسلی سے جواب دیاکہ لائٹ آنے کی خوشی ۔ یہ وہی خوشی ہے جو آج یہ بچے منا رہے ہیں۔ یہ قسمت قسمت کی بات ہے بلکہ اگر میں صحیح کہوں تو یہ ملک ملک کی بات ہے۔

کوئی دو گھنٹے کی محنت کے بعد ابھی جنریٹر چلا ہی تھا کہ واپڈا والوں  کی مہربانی ہے لائٹ بھی آ گئی۔مگر اس واقعہ سےایک بات  تو واضح ہوگئی کہ ہم لوگ اسباب ہونے  کے باوجود تیاری کر کے نہیں رکھتے اور پھر آنے والی پریشانی کا رونا روتے ہیں اور قسمت کو قصوار ٹھہراتے ہیں۔خیر پھرکھانا کھایا اور اپنے اپنے چمبر میں داخل ہو گئے۔

حجرے میں مجھے  بے چینی محسوس ہو رہی تھی ۔ ہوا یوں کہ جب لائٹ بند ہو نے پر بچے شور مچانے لگے  تو میں نے انھیں اپنے پاس بلایا اور ان سے تعارف کے بہانے گفتگو شروع کی۔سب بچے اپنا   اور علاقہ کا نام بتا رہے تھے۔ان میں سے پانچ بچے بلوچستان کے دور افتادہ علاقہ سے تعلق رکھتے تھے جو یہاں حفظ ِ قرآن کے لیے داخل تھے۔انتہائی معصوم  چھوٹی چھوٹی عمر کے۔

میں سوچ رہا ہوں کہ یہ بچے تعلیم کے شوق میں اتنی دور آئے ہیں یا پھر ان کے علاقہ میں بنیادی سہولت کا فقدان یا کوئی اور وجہ ہے ان کی یہاں تک آنے کی۔کاش میرا ملک بھی کسی یورپی ملک، امریکہ یا جاپان جیسا ہوتا جہاں پر علاقہ گاؤں دیہات میں بھی بنیادی سہولیات موجود ہوتی۔ لیکن کیا کہا جائے ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کو جن کو اپنی عیاشی اور ذات کے علاوہ کچھ نظر   نہیں آتا۔

کاش یہ بچے اپنی ماں کی گود اور باپ کی شفقت کے ساتھ میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرتے۔روزانہ  جب گھر جاتے تو ان کی ماں انھیں دیکھ کر کتنی خوش ہوتی۔اور اب ان کی مائیں ان کی جدائی میں کس طرح ٹرپتی ہوں گی۔

ملک کے تمام وسائل پر چند خاندان قابض ہیں اور مسائل صرف بائیس کروڑ لوگوں کے لیے ہیں۔کاش۔۔۔۔۔۔

ابھی 24 ویں رمضان کی سحری کا وقت ہوا چاہتا ہے مگر دل ابھی تک اداس ہے۔ دل سے دعا نکل رہی ہےکہ:” یا اللہ جن لوگوں نے ہمارے ملک اور وسائل پر ناجا ئز قبضہ کر رکھا ہے۔ جو ہمارے مسائل کی اصل وجہ ہیں! ان کواس دنیا میں اور آخرت میں کوئی رعایت  نہ دینا۔۔۔۔۔آمین”

سحری کا کھانا آ گیا ہے۔پھر ملاقات ہو گی ۔انشاء اللہ

آج رمضان المبارک کی 25 ویں رات ہے۔ اور آج ہی مسجد ھذا میں قیام اللیل میں  قرآن مکمل ہو گا۔یہاں نماز تراویح ڈاکٹر حافظ حنظلہ پڑھا رہے ہیں۔ جی باں قاری حنظلہ نے ابھی حال ہی میں اپنی MBBS مکمل کی ہے اور ابھی سول ہسپتال حیدرآباد میں ہاؤس جاب (House Job) کر رہے ہیں۔بہت خوبصورت آواز میں تلاوت کرتے ہیں۔ خصوصاً جب والضالین کہتے ہیں تو بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔اعلیٰ خَلق و خُلق کے مالک ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے۔اور سونے پر سہاگہ کہ قرآن مکمل ہونے کے موقع پر ان کے یعنی ڈاکٹر حافظ حنظلہ کے والد گرامی  حافظ فوزالعظیم درس اور نصیحت فرمائیں گے۔ ماشاءاللہ یعنی حافظ ابن ِ حافظ۔ وہ بھی حیدر آباد کے مشہور قاری و خطیب ہیں۔درس کے بعد ایک ساتھی نے مقتدیوں کے لیے شیرنی کا اہتمام  بھی کیا تھا۔

لوگ تو مٹھائی کھا کر چلے گئے مگر اب ہال میں بہت ساری چیونٹیوں کا مٹر گشت جاری تھا۔ایسے میں مسجد میں  پڑھنا اور خیموں میں رہنا بہت مشکل تھا۔ خیر ہم نے فیصلہ کیا کہ پہلے مسجد کی صفائی کی جائے ۔ فنائل کا پوچا لگانے کے بعد کچھ سکون ہوا ۔

آج ہی کی رات   بلوچستان والے بچے عید کی چھٹیوں کے لیے واپس گئے۔ بہت خوش تھے۔ وہ شام سے ہی اپنے اپنے انداز میں خوشیاں منا رہے تھے۔ مجھے بھی خوشی محسوس ہو رہی تھی  اور سوچ رہا تھا کہ جب وہ گھر میں داخل ہوں گے تو ان کے والدین کتنے خوش ہوں گے۔ کوئی رات 11 بجے انھیں بس کے ذریعے روانہ کیا گیا۔ اللہ غفور رحیم انھیں خیر خیریت سے گھر تک پہنچائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین۔

آج طاق رات تھی اللہ السمیع و البصیر سے خوب دعائیں کی۔ آج کی خاص دعا میں تمام مریض شامل تھے۔ اور دوسری دعا  تھی  کہ اللہ مسبّبُ الاسباب ہے     ہمارے لیے بھی دیار ِ حرم  جانے کے اسباب پیدا کر دے۔ اپنے گھر کا طواف کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ مکہ مدینہ کی گلیاں دیکھیں ۔ اماں ہاجرہ ؑ کس طرح بچے کی پیاس بجھانے کے لیے صفا مروا پہاڑیوں پر دوڑ تی پھر رہی تھی  وہ مقام دیکھنا اور جذبات محسوس کرنے کی توفیق ہمیں بھی نصیب ہو۔۔آمین

اب رات کے چار بج رہے ہیں۔ آج رات عبادات و دعاؤں کا خوب مزا آیا۔ وقتِ سحری ہوا چاہتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبار ک و تعالیٰ ہم سب کی دعائیں اور عبادتیں قبول و منظور فرمائے۔۔۔آمین

25 رمضان المبارک:  دن میں کچھ دیر آرام کیا اور پھر وہی  اللہ تبارک تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کی کوشش شروع ہو گئی۔ حقیقتاً اللہ الرحمٰن الرحیم درگز   اور بہت ہمت و حوصلے والا ہے ۔ انسان کتنے بھی گناہ کرلے۔ گناہوں میں سر تک ڈوبا ہوا ہو پھر اگر صرف ایک دفعہ توبہ کرلے تو رب کریم اسے دوسری دفعہ دہرانے کے لیے بھی نہیں کہتا۔

انسان کی تمام سرکشیاں، بدمعاشیاں، بدمستیاں ایک دفعہ کہنے پر ہی معاف کر دیتا ہے۔ ہے نہ حوصلے کی بات۔ یہ صرف اللہ احکم الحاکمین کی ہی خصوصیت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہماری خطاؤں سے بھی درگز فرمائے۔اگر حقیقت پوچھیں تو اعتکاف میں بیٹھنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ زندگی میں جو بھی گناہ ہوئے ہیں  ۔اپنے مالک و خالق کے حضور حاضر ہو کر معافی طلب کی جائے۔

اعتکاف کا ایک اور فائدہ:

          کاروبارِ زندگی کی مصروفیات میں مگن رہنے سے انسان تھک جاتا ہے۔ میں سوچا کرتا تھا کہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں دنیاوی معاملات سے مکمل طور پر قطعہ تعلقی کر کے چند دن آرام کیا جائے ۔جہاں کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ کسی کی مداخلت نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے میں نے کئی علاقوں کی طرف سفر بھی کیا مگر مکمل طور پر اطمینان و سکون نہ مل سکا۔ لیکن یہاں مسجد میں اعتکاف کے دوران خصوصاً  آج یہ احساس ہو رہا ہے کہ میں مکمل پرسکون اور تازہ دم (Refresh)  ہو گیا ہوں۔خاص بات یہ ہے کہ کہیں بھی چلے جائیں مگر وہاں موبائل جان نہیں چھوڑتا یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں موبائل بند ہے اور میں مکمل آزاد یعنی صرف میں اور میرا اللہ ۔۔۔۔بس۔

          میرا مشورہ ہے  جو لوگ آرام و سکون کے متلاشی ہیں ۔ چند دن اپنی مرضی سے گزارنا چاہتے ہیں وہ ایک دفعہ ضرور اعتکاف کریں پھر دیکھیئے گا کہ کتنا مزا آتا ہے۔ یعنی یہ دس دن صرف آپ اپنے لیے گزارتے ہیں ۔صرف ایک  ہی ہستی سے تعلق، لگن و آس ہوتی ہے۔جو لوگ سمجھتےہیں نا کہ ان کے بغیر دنیا نہیں چل سکتی وہ بھی  یہاں بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا ان کے بغیر  نہ صرف چل  رہی ہے بلکہ تمہارے نہ ہونے سے کوئی فرق  بھی محسوس نہیں ہو رہا۔ یہاں تمام دنیاوی بکھیڑوں سے دور اپنے ہی جہاں میں مست۔ میری تو دلی دعا ہے کہ  اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو کم از کم ایک دفعہ یہ موقع لازمی دے۔۔۔۔آمین

          سارا دن نمازوں،عبادتوں اور دعاؤں کا سلسلہ جاری رہا  کہ رات ہو گئی ۔کچھ دیر درس و تدریس کا سلسلہ بھی ہوا جہاں میں نے عربی لفظ ” تقویٰ” کے معنی و مفہوم پر اظہار ِ خیال کیا:

          تقویٰ کے معنی  پرہیزگار یعنی مضر اورنقصاندہ  چیزوں و اعمال سے بچنے کے ہیں۔ بلکل اُسی طرح جیسے ڈاکٹر صاحب شوگر کے مریض کو تجویز کرتے ہیں کہ ہر میٹھی چیز  سے پرہیز کیا جائے۔ ایسے انسان کو اچھی زندگی  دنیا و آخرت میں  اچھی زندگی گزارنے کے لیے تقویٰ یعنی پرہیز گار بننا چاہیے۔ تمام برے اخلاق، اعمال ، معاملات، حرکات و سکنات  سے بچنا ہی تقویٰ کہلاتا ہے۔

          آج 26 رمضان المبارک کا دن ہے نماز ِ عصر کے بعد ہمارے ایک معتکف ساتھی     اؔرقم  جو کہ ابھی آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں ان کا چھوٹا بھائی بھی مسجد میں آگیا اور وہ کافی دیر تک مسجد میں کھیل کود میں مصروف رہا۔ شور بھی ہو رہا تھا تو ہمارے دوسرے معتکف ساتھی جس کی عادت ہے کہ بغیر کسی رکھ رکھاؤ کے ہی منہ پر بات کردیتے ہیں نے ارقم کو بھی ڈانٹا اور ساتھ میں ان کے والد کو بھی شکایت کر دی۔ اب تو ارقم بچارہ رونے ہی لگ گیا بلکہ احتجاجاً اس نے رات کا کھانا بھی اپنے حجرے میں ہی کھایا۔پھر ہم سب اس کے حجرے میں گئے اور اسے منایا۔

          آج 27 ویں شب تھی طاق راتوں میں آج یہ چوتھی رات  ہے۔ رات دیر سے دوران گفتگو طلاق کا موضوع  زیرِ بحث آیا۔ جس طرح نکاح اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاص نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اسی طرح طلاق بھی ایک نعمت ہے۔ یعنی اگر میاں بیوی کے درمیان کسی وجہ سے حالات اس حد تک خراب ہو جائیں کہ دونوں کا ایک ساتھ گزارا مشکل ہو جائے تو رب رحیم و کریم نے ایسی حالت میں بھی ہماری رہنمائی فرمائی کہ کیا کرنا چاہیے۔

          اگر شوہر و بیوی  میں کسی وجہ سے تنازع پیدا ہو جائے تو اللہ تبارک  و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پہلے میاں بیوی آپس میں بستر علیحدہ علیحدہ کریں اگر پھر بھی معاملہ حل نہ ہو تو دونوں فریقین کے خاندان سے ایک ایک  حکم (Mediator)  مقرر کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے کہ اگر نیت صحیح ہو گی تو  اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکال دے گا۔لیکن اگر پھر بھی فریقین صلح پر راضی نہ ہو ں تو پھر طلاق  کا آپشن (Option) استعمال کیا جائے۔اس کا طریقہ بھی اللہ نے قرآن و حدیث میں واضح انداز میں بیان کر دیا کہ شوہر عورت کو حیض سے پاکی حاصل کرنے کے بعد ایک طلاق دے  اور تین ماہ تک اس کا رجوع پیریڈ ہو گا اور اس دوران عورت شوہر کے گھر ہی قیام کرے گی۔یہ ایک طلاق تین ماہ کے بعد مکمل ہو گئی۔یعنی تین ماہ کے بعد اب عورت آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے اگر وہ چاہے تو دوبارہ  اپنےپہلے والے خاوند سے  پھر نکاح کر سکتی ہے۔یہ طلاق کا احسن طریقہ ہے اور اس  پر کسی فرقہ یا جماعت کا کوئی اختلاف نہیں۔ علماء اکرام کو چاہیے کہ یہ طریقہ عوام کے سامنے رکھیں خصوصاً نوجوانوں کو اس کی تعلیم دیں تا کہ ان کے گھر ٹوٹنے سے بچ سکیں۔

28رمضان المبارک کی شب ہم سب معتکفین نے مل کر مسجد کی جامع صفائی کی اور پھر رات دیر سے ہوٹل سے چائے منگوا کر پی۔

29 رمضان کو نماز عصر کے بعد ایک حادثہ پیش آیا ہوا یوں کہ ہمارے ساتھ عبدالجبار بھائی مسجد میں لگے ایگزاسٹ فین میں ہاتھ رکھ کر کھڑے تھے کہ اچانک کسی نے پنکھا چلا دیا ۔ جس سے ان کے دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں زخمی  ہونے سے کافی خون  بہا۔ قریبی  کلنک سے کمپاؤنڈر کو بلا کر مرحم پٹی کی گئی۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ آج چاند نظر آ جا ئے گا مگر ہم سب  دلی طور پر دعا کر رہے تھے کہ یااللہ ! آج کی رات  بھی مل جائے اور کچھ مزید دعائیں و عبادتیں  کرنے کا موقع مل جائے۔اور اللہ رب کریم نے بہت جلد دعا قبول فرئی اور چاند نظر نہیں آیا اس طرح ہمیں مزید کچھ لمحات میسر آ گئے۔

آج تیسویں شب ہے ۔ رات عبادت سے فارغ ہو کر  سحری سے کچھ دیر قبل  ساتھیوں کےساتھ بیٹھے اور توبہ کے موضع پر گفتگو ہوئی توبہ کی شرائط یعنی  توبہ کرنے سے پہلے گناہ کے کام کو ترک کیا جائے ، اس پر شرمندگی محسوس ہو اور پھر آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کرنا ہو گا ۔ سب سے آخر میں ان گناہ پر اللہ سے معافی کے طلب گار ہونا ہو گا۔ یہ ہے توبۃ نصوحا کا طریقہ  ۔ اسی طرح سے ہمیں اپنے گناہوں کی طرف متوجہ ہو کر اللہ سے رجوع کرنا چاہیے۔

اعتکاف کا آخری دن:

ہمارے دوسرے ساتھی قربان علی جن کی قرات بہت خوبصورت ہے انھوں نے وقتاً فوقتاً ہمیں مختلف قراء حضرات کی آواز میں قرآن سنایا۔اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی آواز ، شوق  اور علم و عمل میں مزید اضافہ فرمائے۔

آخری دن عام طور پر لوگ خوش ہوتے ہیں کہ آج گھر کی طرف واپسی ہو گی۔مگر ہمارے ساتھی تو اداس تھے کیوں کہ عبادات، دعاؤں کا گولڈن پیکچ ختم ہو رہا تھا۔اپنے رب کے سات راز و نیاز کی گھڑیاں ختم ہو رہی تھیں۔ وقت تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

ہمارے سب سے چھوٹے ساتھی (عمر کے لحاظ سے) شہزادہ ارقم بھی اداس تھا۔ اعتکاف کے دوران اس کی شرارتیں اور ہنسی مذاق سے ہم محظوظ ہوتے  رہے آج وہ بھی اداس تھا۔ساتھ ہی ہم دل ہی دل میں رمضان کے بعد اپنی زندگی کو صراطِ مستقیم کے تحت گزارنے کا عزم کر رہے تھے۔

اسی دوران کب نماز مغرب کی آذان ہوئی ، افطار کی ، نماز ادا کی  کچھ اندازہ ہی نہ ہوا۔ سب لوگ مبارک بادیں دے رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ ان دس دنوں میں  کیا سیکھا، کیا میں اپنے رب کو راضی کر پایا۔ کیا میں اپنی خطائیں معاف کروانے میں کامیاب ہوپایا یا نہیں۔

سب ساتھیوں کے گھر والے ان کو لینے کے لیے پہنچ چکے تھے۔ اللہ کے حضور شکرانے کےنوافل ادا کیے اور ایک دوسرے سے الوداعی ملاقات کر کے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔

اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد

کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد

کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button