Uncategorizedآج کے کالمزفیچر کالمز

نکاحِ ثانی ( اجازت و حکمت)

 

ڈاکٹر عبد الحمید آرائیں

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سکھایا جس سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے،  بہترین معاشرہ کے قیام کے لیے انسان پر ایک دوسرے کے حقوق متعارف کروائے گئے اور ان حقوق کی حفاظت کے  لیے جہا ں ایک طرف پابندیاں عائد کی گئی تو وہیں کچھ مراعات و اجازات بھی دی گئی تا کہ معاشرہ میں عدل قائم رہ سکے۔اسلام دین ِ فطرت ہے ۔ اور فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی جنسی خواہشات کو پوری کرے، جس کے لیے اسلام نے اس کا جائز اور عین فطرت کے مطابق طریقہ بتایا یعنی  مرد نیک پاکباز خاتون سے نکاح کرے(النور:۲۶).

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :

"جو شخص مہر ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ نکاح کرلے اس لئے کہ وہ (نکاح)نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرمگاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے”(صحیح بخاری)۔

اسلام نکاح کی ترغیب کے ساتھ ساتھ مخصوص حالات میں ایک وقت میں ایک سے زیادہ   بیک وقت چار بیویں تک رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ جیسا کہ ذیل کی آیت سے واضح ہوتا ہے:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا۔(سورہ النساء :3)

"اور اگر تمہیں اندیشہ ہو اس بات کا کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے یتیموں کے بارے میں، تو تم نکاح کر لیا کرو ان دوسری عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں، دو دو، تین تین، اور چار چار، لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے (ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان) تو پھر تم ایک پر ہی اکتفا کر لیا کرو، یا ان باندیوں پر جن کے مالک ہوں ، یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو”۔

اس آیت کے تحت  اللہ تعالیٰ نے مرد کو چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنی بیویوں میں برابری کرے گا۔ اسلام کی طرف سے دی گئی اس سہولت پر کچھ لوگوں کو اعتراضات  ہیں۔

            ان اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اجازت صرف جنگِ اُحد میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی بیواؤں اور یتیموں کی آباد کاری کی وجہ سے دی گئی تھی۔ تاریخ پر نظردوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگ احد میں صرف  ستر مسلمان شہید ہوئے تھے اور اگر ان کی بیواؤں کا ہی مسئلہ ہوتا تو وہ صرف ایک عارضی حکم جو ستر مسلمانوں کو دیا جاتا اور بات ختم ہو جاتی مگر اللہ کا یہ حکم عام ہے اورتاریخ گواہ ہے کہ اس اجازت سے مسلمان ہمیشہ سے فائدہ اٹھاتے آئے ہیں  جن میں صحابہ، تابعین اور سلف صالحیں شامل ہیں۔

            دوسرا اعتراض ہے کہ اس اجازت سے عورت پر ظلم ہوتا ہے اس کے حقوق پر زرد پڑتی ہے۔ اگر غیر جانبداری سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ  دراصل یہ اجازت ہے ہی عورت کی بھلائی و بہتری کے لیے۔اس اجازت سے سب سے زیادہ فائدہ عورتوں کو حاصل ہے۔

اس مقالے میں یہی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے  کہ کیا  آج کے اس ماڈرن دور میں بھی  اس سہولت کے کیا فوائد و مضمرات ہیں۔

تمام مذہب میں مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرنےسے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تو مرد پر کوئی پابندی  ہی نہیں ہے وہ جتنے چاہیے نکاح کر سکتا ہے ۔ مگر اسلام ہی وہ  واحد مذہب ہے جس میں مرد کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ بیک وقت صرف چارنکاح کرسکتا ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اپنی بیویوں میں برابری کرے گا اوراگر  ایسا  نہ کر سکے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے۔ یہ اجازت جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے نہیں دی گئی بلکہ   اس کا بنیادی مقصد معاشرے میں بیوہ اور یتیم بچوں کو سہارا دینا ہے، جنسی بے راہ روی  کو ختم کرنا، اگر کسی معاشرے یا کسی زمانے میں عورتوں کی آبادی میں اضافہ ہو جائے  اور مردوں کی تعداد کم تو اس مسئلہ پر قابو پایا جاسکے یا اگر کوئی ایسی مجبوری ہو جائے کہ دوسری شادی ناگزیر ہو تو  اسلام نےاس مسئلے کا حل پیش کیا ہے، کیونکہ اسلام   اُس نظامِ حیات کا نام ہے جس کا پیش کرنے والا تمام مخلوق کا خالق و مالک ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ اس کی مخلوق   کی بہتری کس میں ہے ۔

ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیگر مذاہب میں:

اس وقت  دنیاکے مذاہب میں یہودیت، عیسائیت اور ہندؤ زیادہ مشہور و معروف ہیں آئیے دیکھتے ہیں کہ دوسری شادی کے بارے میں ان مذاہب کی کیا تعلیمات ہیں:

یہودیت:

"اگر وہ دوسری عورت کر لے تو بھی وہ اس کے کھانے کپڑے اور شادی کے فرض میں قاصر نہ ہو”(خروج 10:21).

"اور داؤد نے یروشلم میں اور عورتیں بیاہ لیں اور اس سے اور بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے”(سیموئیل 3:14).

بادشاہ داؤد کی چھ بیویاں تھیں(1- تاریخ 1:3-9).

"سلیمان بادشاہ کی سات سو بیویاں تھی” (1-سلاطین 3:11).

"سلیمان کے بیٹے رحبعام کی 18 بیویاں اور 60 داشتائیں تھیں”(2-تاریخ 21:11).

"اگر کسی مرد کی دو بیویاں ہوں اورایک محبوبہ اور دوسری غیر محبوبہ اور دونوں سے لڑکے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔”(اِستشنا 5:21).

            عہد نامہ قدیم  سے مرد کی دوسری شادی کے حق میں مزید دلائل بھی دیئے جا سکتے ہیں مگر اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کا فی ہیں۔

عیسائیت:

            عہد نامہ قدیم عیسائیوں کے نزدیک بھی مستند ہے اس لیے یہی حوالے عیسائیت میں بھی مرد کو دوسری شادی کی اجازت ثابت کر نے کے لیے کافی ہیں۔

            عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی کے 33 سال اس معاشرے میں گزارے جہاں مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت تھی مگر عیسیٰ علیہ السلام نے انھیں منع نہیں کیا بلکہ توریت اور زبور کے احکامات کو جاری رکھا (انجیلِ متی 5: 17-18)۔

            "نیرنبرگ(Nurnberg) جرمنی نے فیبروری-14-1650 میں حکومت نے یہ احکامات جاری کیے کہ مسلسل جنگ کی وجہ سے مردوں کی تعداد کم ہو گئی ہے لہذا اب مردوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ دس عورتوں سے شادی کریں اور بچے پیدا کریں”[1]۔

ہندو مذہب:

ہندومذہب میں کہیں بھی دوسری شادی کی ممانیت نہیں ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حوالوں سے ثابت ہے:

ہندو مذہب میں بھی ایک سے زیادہ شادی کی اجازت ہے جیسا کہ "کرشنا کی 16000 بیویاں تھیں[2]۔

بھیشما بادشاہ یدھیشتھرا بادشاہ کو کہتا ہے کہ:

"ایک برہمن تین بیویاں رکھ سکتا ہے، شتریا دو اورویشیا ایک بیوی رکھ سکتا ہے”[3]۔

            دوسری شادی پر پابندی حکومت انڈیا نے 1954 میں "ہندو میرج ایکٹ” کے ذریعے لگائی ہے مگر یہ پابندی ہندو مذہب میں نہیں ہے.

            جن معاشروں میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے جب وہاں سے معلومات اکٹھی کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس اجازت پر عمل درآمد بہت کم ہوتا ہے۔

            ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق ہندومعاشرہ میں ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی شرح ٪5.06 ہے اور مسلمانوں میں دوسری شادی کی شرح صرف ٪4.31 ہے [4]۔

            جبکہ پاکستان میں شادی شدہ مردوں میں سے صرف 5 فی صد مرد  دُوسری شادی کرتے ہیں۔

ایک سے زیادہ شادی کے فوائد:

            ملائیشیا ایک سےزیادہ شادی کرنے کا موضوع زیرِ بحث ہے کچھ لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ اگست میں وہاں ایک تنظیم "Polygamy club” (ایک سے زیادہ شادی کے حق میں گروہ)بنایا گیا ہے جس میں 1000 رکن میں جن میں سے 700 ارکان خواتین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرہ میں مرد کو دوسری شادی کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ وہ کنواری عورتیں جن کی عمریں شادی کے انتظار میں گزرتی جارہی ہے یا وہ عورتیں جن کے شوہر مر چکے ہیں اور بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں انھیں بھی شوہر مل سکیں اور وہ عزت کی زندگی گزار سکیں۔ یتیم بچوں کو باپ کا سہارا مل سکے۔

دوسری شادی کی وجوہات:

            عورت قرار حمل سے لے کربچے کو دودھ پلانے تک مرد کے لیے تیار نہیں ہوتی، اس دوران مرد اگر اپنی ضرورت پوری کرنا چاہے تو اس کے پاس دو راستے ہیں یا تو وہ بازاری عورت کے پاس جائے جو اخلاقی و قانونی جرم ہے، صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی کے لیے بھی پریشانی اور تکلیف کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کی صحت کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں جو کہ کسی سےبھی پوشیدہ نہیں ہیں۔اس لئے مرد و عورت کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ دوسری شادی کر لے جس میں عورت کے لیے بھی خیر ہے اور مرد کے لیے بھی۔ ساتھ ساتھ معاشرہ بھی برائیوں سے بچا رہتا ہے۔

            بعض عورتیں ماں بننے کے قابل نہیں ہوتیں تو ایسی صورت  میں بھی مرد کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ یا تو بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کر ےیا پھر پہلی بیوی کی موجودگی ہی میں دوسری شادی کرے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ طلاق یافتہ خواتین کو بہت سارے مسائل و مصائب کا سامنا ہوتا ہے۔ جبکہ اگر  وہ شوہر کے ساتھ ہی ہوتی تو اسے اُن تمام مسائل و مصیبتوں سے چٹکارا مل سکتا تھا جن کا انھیں طلاق  کے بعد سامنا ہوتا ہے۔

            مردوں کی شرح اموات عورتوں سے زیادہ ہے۔ یہ عام مشاہدے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بیوہ عورتوں کی تعداد زیادہ ہے بنسبت رنڈوے مرد(جن کی بیویاں مر چکی ہوں) کے۔ یعنی 50 سال کی عمر تک پہنچنے تک 10 عورتوں کے مقابلے میں 16 مردوں مرتے ہیں[5]۔

            ڈاکٹر  صاحبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ دورانِ پیدائش یا پیدائش کے فوراً بعد مرنے والے بچوں میں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یعنی  1  بچی کے مقابلے میں 3  بچوں کی اموات ہو تی ہے [6]۔

            اسی طرح آج کے عام حالات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہونے والی جنگوں،دہشت گردی، آئے دن کے حادثات، سگریٹ نوشی، شراب نوشی و دیگر معاملات میں زیادہ اموات مردوں ہی کی ہوتی ہے۔

مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے:

دنیا میں عورتوں کی آبادی   49.76% کیونکہ چین اور انڈیا میں لڑکی کی پیدائش کو پسند نہیں کیا جاتا۔ معلوم ہونے پر کہ رحمِ مادر میں لڑکی ہے تو اکشر اوقات وہ حمل ضائع کر دیا جاتا ہے۔ورنہ دنیا کے اکثر ممالک میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے:

سیریل نمبر ملک مردوں کی تعداد عورتوں کی تعداد زائد عورتیں
1 امریکہ 15,52,44,097 15,94,,14,683 41,70,586
2 انگلینڈ 3,02,02,183 3,13,63,239 11,61,056
3 سوئٹزرلینڈ 36,96,232 38,71,429 1,75,197
4 روس 6,50,96,448 7,57,77,199 1,06,80,751
5 جرمنی 4,02,85,731 4,18,80,940 15,95,209
6 جاپان 6,19,39,779 6,52,16,446 32,76,667
7 آرمینیہ 14,36,966 16,45,985 2,09,019
8 اٹلی 2,91,25,996 3,07,44,127 16,18,131
9 تاجکستان 34,32,263 35,19,960 87,697
10 فرانس 3,03,11,870 3,20,30,798 17,18,928
11 سری لنکا 99,65,629 1,02,72,101 3,06,472

            مندرجہ بالا حقائق  سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر معاشرہ میں عدل و انصاف قائم رکھنا ہے تو مرد کے لیے نکاح ثانی  کی اجازت دینی ہوگئی۔ مگر ان تمام حقائق کے باوجود کچھ لوگوں کو ایک سے زیادہ بیویوں کو مذموم فعل سمجھتے ہیں۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان کی اس سوچ کی بنیادی وجہ ہے:

            پہلی بنیاد فحاشی، بدکاری، داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اور جنسی آوارگی ہے جسے مغرب میں مذموم فعل کی بجائے عین جائز بلکہ مستحسن فعل سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسری بنیاد مادیت پرستی ہے۔ جس میں ہر شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا معیار ِزندگی بلند ہو اور اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائے مگر ان باتوں پر چونکہ بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں جو ہر انسان پورے نہیں کر سکتا، لہذا وہ اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو یا کم سے کم ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ تو ایک بیوی بھی بمشکل برداشت کرتا ہے اور وہ بہتر یہی سمجھتا ہے کہ بیوی ایک بھی نہ ہو اور سِفاح یا بدکاری سے ہی کام چلتا رہے۔ لیکن اسلام سب سے زیادہ زور ہی مرد اور عورت کی عفت پر دیتا ہے اور ہر طرح کی فحاشی کو مذموم فعل قرار دیتا ہے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کی بجائے سادہ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اسی لیے اس نے اقتضاء ات اور حالات کے مطابق چار بیویوں تک کی اجازت دی ہے۔

نکاح ثانی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا قانون:

            اسی مغربی تخیل سے اور بعض ‘مہذب خواتین’ کے مطالبہ سے متاثر ہو کر صدر ایوب کے دور میں پاکستان میں مسلم عائلی قوانین کا آرڈیننس 1961ء پاس ہوا۔ جس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر مرد شادی شدہ ہو اور دوسری شادی کرنا چاہتا ہو تو وہ سب سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے اس دوسری شادی کی رضامندی اور اجازت تحریراً حاصل کرے، پھر ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کرے اور اگر ثالثی کونسل بھی اجازت دے تو تب ہی وہ دوسری شادی کر سکتا ہے۔ جیساکہ اس آرڈیننس کی شق نمبر 21 اور 22 سے واضح ہوتا ہے۔ گویا حکومت نے نکاحِ ثانی پر ایسی پابندیاں لگا دیں کہ کوئی شخص کسی انتہائی مجبوری کے بغیر دوسرے نکاح کی بات سوچ بھی نہ سکے اور عملاً اس اجازت کو ختم کر دیا جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو دی تھی۔

            اب جو لوگ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اور پہلی بیوی کے رویہ سے نالاں تھے یا کسی اور مقصد کے لیے دوسری شادی ضروری سمجھتے تھے انہوں نے اس غیر فطری پابندی کا آسان حل یہ سوچا کہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر رخصت کر دیا جائے اور بعد میں آزادی سے دوسری شادی کر لی جائے۔ اس طرح جو قانون عورتوں کے حقوق کی محافظت کے لیے بنایا گیا تھا وہ خود انہی کی پریشانی کا موجب بن گیا۔ کیونکہ اللہ کے احکام کی ایسی غیر فطری تاویل اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے معاشرہ کو اس کی سزا مل کے رہتی ہے۔

            جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے گیارہ نکاح کیے، ابوبکر صدیق ، عمر فاروق، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ اکرام نے  متعدد نکاح کیے مگر کسی نے بھی پہلے سے موجود بیوی سے دوسرے نکاح کی اجازت طلب نہیں اور نہ ہی شریعت ِ اسلامیہ میں اس کی طرف کو ئی اشارہ ملتا ہے، اس سےمعلوم ہو تا ہے کہ یہ شرط کہ پہلی بیوی کی اجازت لی جائے  یہ غیر اسلامی  اور غیر منطقی ہے۔

            مندرجہ بالا تمام دلائل سے یہ واضح  ہو جا تا ہے اسلام ہی وہ دینِ فطرت ہے جس میں  انسانی فطرت  و ضرورت کے مطابق احکامات نازل کیے گئے ہیں، ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ خالق ِ کائنات  کے حکم کو مانے اور اس کی طرف سے دی گئی مراعات و اجازات   کو دل سے مانیں اور ان پر خوش ہوں۔


[1] New World Encyclopedia

[2] مہابھارت، انوساسنا پروا، حصہ 14، سرمد بھگوگیتا پُرانا،کتاب-10، شلوکا-69

[3] مھابھارت، انوساسنا پروا، حصہ-44

[4] The Report of Committee of The Status of Woman in Islam, published in 1975. Page No.66-67

[5])According to the Research Paper; University  of Michigan, USA(

[6] )According to the Research Paper; University  of Michigan, USA(

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button