ریڈ لائن
انجنئیر ظفر وٹو
ہم گھبیر ندی کے کنارے بیٹھے تھے اور اس پر مجوزہ ڈیم کی جھیل کے علاقے کو دیکھنا چاہتے تھے۔ ارشد فیاض صاحب چیف جیولوجسٹ نے سگریٹ کا کش لیا اور ایک گہرا سانس اندر لے کر بولے ۔۔۔۔دھیان سے جانا ۔ کئی سال پہلے ہم ایک ڈیم سائٹ کے دورے پر مجوزہ جھیل کے علاقے میں سروے کے لئے پہنچے تو گاوں والوں نے ہم پر کتے چھوڑ دئے تھے ۔ایک دوست بھاگ کر درخت پر چڑھ گیا اور دوسرے نے پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ تیسرا جو گاڑی کے پاس تھا اس نے جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کی اور بھگالے گیا۔وہ لوگ اپنی زمینوں کے مجوزہ جھیل میں ڈوبنے کا سن کر شدید برہم تھے۔۔
پھر انہوں نےمونچھوں کو تاؤ دینے کے بعد بتایا کہ کچھ دن بعد اسی ڈیم پر جیسے ہی ہم سروے کے لئے ڈیم سے نیچے والے علاقے میں پہنچے جہاں مجوزہ ڈیم کا نہری نظام بننا تھا تو لوگوں نے ہماری خوب آؤ بھگت کی۔ چائے پانی کیا اور ہمیں کہا کہ آپ نے کھانا کھائے بغیر نہیں جانا اور وہ بھی دیسی مرغ کا سالن۔
ہر ڈیم انجنئیر کی زندگی ایسے واقعات سے بھری ہوتی ہے۔ڈیم پراجیکٹ میں ڈیم وہ ریڈ لائن ہوتا ہے جس کے اوپر جھیل کا علاقہ ہمیشہ قربانی دیتا ہے اور ڈیم سے نیچے نہریں نکلنے والا علاقہ نفع لیتا ہے۔اسے آپ لائن آف کنٹرول بی کہہ سکتے ہیں جسے عبور کرنے پر آپ کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
کل سہ پہر ہم تین دوست کوتل کنڈ کے علاقے میں جب دو ڈھائی سوفٹ بلند تین چار چوٹیاں چڑھ کر ٹاپ پر پہنچے تو ہمیشہ کی طرح اپنے سامنے مجوزہ ڈیم، جھیل کا علاقہ اور اسپل وے کی لوکیشن کے لئے جائزہ لینے لگے۔ ٹاپ پر تین سو ساٹھ ڈگری کا نظارہ مل جاتا ہے۔
ہم پسینے سے شرابور ہو چکے تھے اور پھلائی کے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر ڈسکشن کرنے لگے۔ پتھروں کی ساخت پر باتیں ہونے لگیں۔ جھیل کی اسٹوریج کے اندازے لگانے لگے اور لوگوں کو پہنچنے والے ممکنہ فائدے پر باتیں ہونے لگیں جب کہ نیچے دریا میں ہماری گاڑیاں اور ٹیم کے دوسرے دوست نقطوں کی مانند نظر آرہے تھے۔ کچھ دوست دریا کے چلتے پانی میں گھس کر اس کی پیمائش اور دوسرے ٹیسٹ کر رہے تھے جب کہ چند اور بائیں طرف کی پہاڑیوں پر نکل گئے تھے جہاں اونچائی پر ہمارے سروئیر نے انسٹرمنٹ لگایا ہوا تھا-
ہمیں چوٹی پر چڑھے آدھا گھنٹا ہی ہوا تھا کہ ہاتھ میں کلہاڑی لئے سلیم وہاں نمودار ہوگیا تھا ۔ وہ ایک مقامی چرواہا تھا جو آس پاس کہیں پھر رہا رھا تھااور شاید اس نے ہماری باتیں سن لی تھیں ( پہاڑوں میں دور تک آواز جاتی ہے)۔ وہ اپنی چراگاہوں کے ڈوبنے پر خوش نہیں تھا اور اس کا سوال پوچھنے کا انداز ایسا تھا کہ اگر ہم نے ذرہ برابربھی اس کے علاقے میں چھیڑ خانی کی تو وہ اسی کلہاڑی سے ہمارے ٹکڑے کرکے چوٹی سے نیچے پھینک دے گا۔
اس گرم گرم بات چیت میں میں نے اس کی نفسیات سے کھیلنے کے لئے اس سے پوچھا کہ اگر ہم مجوزہ ڈیم کو دریا پر اس کی جگہ سے ہزار دو ہزار فٹ اوپر بنائیں تو کیسا رہے گا۔ عین توقع کے مطابق اس نے جواب دیا کہ اگر ڈیم اوپر بن جائے تو پھر اس علاقے کو بہت فائدہ ہوگا ۔پاکستان سپر پاور بن جائے گا۔۔۔ یعنی کہ میری چراگاہوں میں قدم نہ رکھو دوسروں کو رگڑ دو۔
میں کہا کہ ہاتھ ملاو اور اب ہمیں اس چوٹی سے نیچے اترنے کا آسان راستہ بتاو تاکہ ہم نیچے اتر کر ندی میں کہیں اوپر جاکر ڈیم کی جگہ دیکھیں اور تمھاری چراگاہوں سے نکل جائیں۔اس نے نہ صرف ہمیں آسان راستہ بتایا بلکہ اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ دیسی مرغی کے سالن سے ہماری تواضح بھی کرے۔