بیلے پر رات پارٹ -2
انجینئر ظفر اقبال وٹو
پہاڑی پانی کے بڑے سیلابی ریلے نے ہمیں انجانے میں دبوچ لیا تھا- ہماری گاڑی تھوڑی دیر پانی پر لٹو کی طرح گھومنے کے بعد سیدھی ہو گئی تھی اور اب کشتی بنی تیزی سے پانی کے بہاؤ کے ساتھ رواں دواں تھی- ایک دریائ انجنئر کے طور پر مجھے اندازہ تھا کہ دریائے ناڑی کے اس حصے میں زمینی ڈھلوان بہت زیادہ ہے اور پانی تیز رفتاری سے نیچے گی طرف بہتاہے- اور کچھ بعید نہیں کہ ھماری گاڑی ہرنائی کے پہاڑی راستوں سے ہوتی صبح تک سبّی سے پہلے تلی تنگی کے مقام پر جاکر ملے گی- تاہم میں نے اپنے ذہن کو پیغام دیا کہ جیسے بھی حالات ہو جایئں بد حواس نہیں ہونا- حوصلہ نہیں ہارنا
ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی اور ہماری کشتی نوح دریا کے درمیان رک گئی- ہم گاڑی کےاندر دم سادھے پھانسی کے قیدی کی طرح بیٹھے تھے اور سیلابی پانی چنگھاڑ تا ہوا اپنی پوری قوت سے اس سے ٹکرا کر اپنا راستہ بنا رہا تھا- پانی میں درخت ، جھاڑیاں اور پتھر کسی میراتھن ریس کے کھلاڑیوں کی طرح دوڑتے جا رہے تھے-پانی اب گاڑی کے بونٹ کے اوپر تک گزر رہا تھا- اور تیزی سے بلند ہونا شروع ہو گیا تھا-بند شیشے پر احمد جان نے باہر سےدستک دی اور بلند آواز سےہمیں گاڑی سے باہر نکلنے کا کہا- حالات کی سنگینی کے پیش نظر ہم نے وقتی طور پر کمان اس کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرلیا- اس نے سب ساتھیوں سے کہا کہ “ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھام لو- ہم لوگ کنارے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے- جو بھی ہو جائے کسی نے دوسرے کا ہاتھ نہیں چھوڑنا”
کبڈی کے کھلاڑیوں کی طرح ہم پانچوں لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے سیلابی پانی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے- ساوی گھوڑی کو ہم نے ترک کر دیا تھا- پانی کبھی ہم میں سے کسی ایک کو اوپر اچھال دیتا لیکن دوسرے لوگ اسے کھینچ کر واپس زمین پر لے آتے- پانی کے ساتھ ہر قسم کے نملیات ، مٹی، جھاڑیاں اور پتھر ہمارے جسموں سے ٹکراتے ہوئے گزر رہے تھے- ہم بظاہر کنارا نظر آنے والے زمین کے ٹکڑے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور وہاں پہنچتے ہی زمین پر لیٹ گئے تھے- ناصر ڈرائیور کو خوف سے شدید قسم کے قے شروع ہو گئی تھی- ساوی گھوڑی کی روشنیاں اب بھی پانی پر پڑ رہی تھیں اور وہ دور سے ہماری بے وفائی کا گلہ کر رہی تھی-
میں اور قائم خان زمین پر لیٹے ہوئے تھے- ذرا حواس بحال ہوئے تو ہم نے جگہ کا جائزہ لینا شروع کیا- پتہ چلا کہ ہم دریا کے کنارے پر نہیں بلکہ دریا کے بیچ ایک بیلے پر موجود ہیں جس کے ہر طرف پانی چل رہا ہے- یہ پتہ چلتے ہی احمد جان اور فیض اللہ بیلے کے کنارے پر بالکل چوکنا ہو کربیٹھ گئے- وہ پانی پر نظر رکھنے کے لئے ایک پتھر پانی کی سطح کے ساتھ کنارے پر رکھ دیتے- جب وہ ڈوب جاتا تو اس سے چار چھے انچ اوپر ایک اور پتھر رکھ دیتے- اسی طرح کے پانچ چھے پتھر ڈوب چکے تھے اور وہ پانی کی بلندی ماپتے ماپتے کنارے پر پیچھے کو کھسک رہے تھے- میرےپیشہ ورانہ کام کے دوران یہ سب سے سادہ اور سب سے مفید پانی کی سطح ماپنے کا طریقہ علم میں آیا تھا-ہر ڈوبتے پتھر کے ساتھ ہماری امید کی ایک کرن بھی مانند پڑ جاتی-
فیض اللہ اونچے درختوں کی تلاش میں بیلے کا چکر لگانے نکل گیا تاکہ پانی بیلے پر آجائے کی صورت میں جان بچائی جا سکے- گھپ اندھیرے مین کچھ نظر نہیں آرہا تھا- ہر طرف حشرات نکل آئے تھے- کوئی گھنٹے بھر کی آپ پیمائی کے بعد پانی نیچے جانا شروع ہو گیا- ایک ایک کرکے درجن بھر سے زیادہ کنارے ڈوبے ہوئے پتھر واپس نظر آنا شروع ہوئے- اور ہم نے سکھ کا سانس لیا-اس سے پہلے کہ پانی پھر سے ہمارے نیچے سے بیلہ نکال لیتا ہم فوری طور پر کبڈی کے طریقے سے ندی پار کرکے دایئں کنارے پر پہنچ گئے-
جھاڑوں کے درمیاں نسبتا ایک صاف جگہ تلاش کرکے ہمیں بٹھا دیا گیا -احمد جان نے کسی ساتھ والے گاوں جاکر مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور فیض اللہ کو ساتھ لے کر روانہ ہو گیا- ہمیں وہیں انتظار کرنے کا کہا گیا- کسی ایمر جنسی کی صورت میں ساتھ کھڑے درختوں پر چڑھنے کا مشورہ دیا گیا-
ناصر کی قے ابھی نہیں تھمی تھی اور وہ زمیں پر اوندھا ہوا پڑا تھا- میں زمین پر لیٹا دور سے اپنی ساوی گھوڑی پر نظریں جمائے ہوئے تھا جس کی چھت پر سے بھی پانی گزر گیا تھا لیکن اس کی روشنیاں ابھی تک جل رہی تھیں جیسے ہمیں کہ رہی ہوں- “دیا جلائے رکھنا ہے”- اس کا یوں سیلابی ریلے میں اپنی جگہ پر ڈٹ کر کھڑے رہنا ایک معجزہ تھا اور معجزے روز روز نہیں ہوتے- یہ پچھلے چار سالوں سے ہمیں اپنے اوپر لادے پورے شمالی بلوچستان میں گھما رہی تھی مگر مجال ہے جو ایک دفعہ بھی اس نے دھوکہ دیا ہو- یہ آج بھی شاید ہمیں چھؤر کر نہیں جانا چاہتی تھی اس لئے فولاد بنی پانی میں جم کر کھڑی تھی-مجھے یاد آیا کہ ہماری ساری فائلیں جن میں پچھلے پندرہ دنوں کا کام تھا اور میرا لیپ ٹاپ تو گاڑی میں رہ گیا تھا-
بھیڑیوں نے پاس ہی اونچی آوازیں نکالنا شروع کردی تھیں۔۔(جاری ہے)